Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ اجر رسالت

										
																									
								

Ayat No : 56-59

: الفرقان

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۵۶قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا ۵۷وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا ۵۸الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا ۵۹

Translation

اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے وہ اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے. اور آپ اس خدائے حق و قیوم پر اعتماد کریں جسے موت آنے والی نہیں ہے اور اسی کی حمد کی تسبیح کرتے رہیں کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی اطلاع کے لئے خود ہی کافی ہے. اس نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو چھ دنوں کے اندر پیدا کیا ہے اور اس کے بعد عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا ہے وہ رحمان ہے اس کی تخلیق کے بارے میں اسی باخبر سے دریافت کرو.

Tafseer

									ہم قرآن مجید کی بہت سے آیات میں پڑھتے ہیں کہ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام نے بڑی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ہم اپنی رسالت و نبوت کا اجر کسی سے نہیں چاہتے بلکہ ہمارا اجر تو خدا کے پاس ہے چنانچہ سورہٴ شعراء کی آیات ۱۰۹،۱۲۷،۱۴۵،۱۶۴،اور ۱۸۰،اور اسی طر ح سورہ ہودکی آیات ۲۹،اور ۵۱،سورہ یونس کی آیت ۷۲ اور سورہ ٴ سبا کی آیت ۴۷،اس بات کی شاہد ہیں اس میں شک نہیں کہ ان کا اس طرح کا مطالبہ نہ کرنا انھیں ہر قسم کے الزام اور اتہام سے بری قرار دیتا ہے اور پھر یہ کہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ہر قسم کے فرائض منصبی کو ادا کرسکتے ہیں کیونکہ مادی فوائد کے پیش نظر ممکن ہے کہ ان کی زبان نہ کھل سکتی ہو اس طرح سے یہ بات بھی ختم ہو جائے گی ۔
لیکن یہ بات لائق توجہ ہے کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر اسلام کے متعلق تین تعبیریں نظر آتی ہیں ۔
پہلی تعبیر تو وہ ہے جو آیاتِ بالا میں بیان ہوئی ہے کہ :
تمہاری ہدایت ہی میری اجرت ہے ۔
یہ نہایت ہی قیمتی بامعنی ٰ اور پر کشش تعبیر ہے ۔
دوسری تعبیر وہ ہے جو سورہٴ شوریٰ کی آیت ۲۳ میں بیان ہوئی ہے کہ:
قل لا اسئکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ
میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے قریبوں سے محبت رکھو۔
تیسری تعبیر وہ ہے جو سورہ سباکی آیت ۴۷ میں بیان ہوئی ہے :۔
قل ماسئلتکم من اجر فھو لکم ان اجری الا علی اللہ 
آپ ان سے کہہ دیجئے !میں نے جو اجر رسالت طلب کیا ہے وہ تمہارے ہی فائدے میں ہے میرا اجر تو صرف خدا پر ہے ۔
اگر ان تینوں تعبیروں کو باہم ملا یا جائے تو اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ اگر رسالت مآب کے بارے میں ذوی القربیٰ کی موٴدت اجر رسالت قرار پائی ہے تو ایک تو اس کا مفاد خود موٴمنین کو ہی پہنچتا ہے نہ کہ پیغمبر کو اور دوسرے یہ محبت ان کی ہدایت کا سبب بنتی ہے ۔
بنابریں یہ تمام آیات مجموعی طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ رسول خدا کے ذوی القربیٰ کی محبت در حقیقت آنحضرت کی رسالت اور رہبری کا تسلسل ہے دوسرے لفظوں میں حضرت رسول اکرم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور آپ کی ہدایت اور راہبری کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے ذوی القربیٰ کا دمان مضبوطی سے پکڑ ا جا ئے اور ان کی راہبری سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے اور یہی وہ چیز ہے جس کی شیعہ حضرات مسئلہ امامت میں طرفداری کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ بعد از پیغمبر اکرم رہبری کا سلسلہ تا قیامت جاری ہے البتہ نبوت کی شکل میں نہیں بلکہ امامت کے عنوان سے ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ اتباع اور پیروی کے لئے محبت ایک اہم اور موٴثر عامل ہے جیسا کہ سورہٴ آلِ عمران کی آیت ۳۱ میں ہے :
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی
”اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ اگر خدا کو دوست رکھنا چاہتے تو میری اتباع کرو“۔
اس لئے کہ میں اس کے فرمان تم تک پہنچاتا ہوں ۔
اصولی طور پر کسی شخص کے ساتھ محبت ، انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچ کے لے جاتی ہے اور محبت کا رشتہ جتنا قوی ہو گا یہ کشش بھی اسی قدر محکم ہوگی ۔ خاص کر جس محبت کاسبب محبوب یہ کمال اس بات کا باعث ہو گا کہ انسان کو شش کرکے خود کو کمال کے اس مبداء تک پہنچائے گا اور محبوب کی ہر تمنا پوری کرکے خود کو اس کے زیادہ سے زیادہ نزدیک کردے گا(1) ۔
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ زندہ ہو ،کیونکہ بتوں کی مانند مردہ چیز کسی کے لئے جائے پناہ نہیں ہوسکتی ۔
دوسری شرط یہ ہے کہ یہ حیات جاودانی ہوتاکہ اس کی موت کا احتمال توکل کرنے والوں کے ذہن میں تزلزل پیدا نہ کردے ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا علم تمام چیزوں پر حاوی ہوتا کہ وہ توکل کرنے والوں کی ضروریات سے باخبر رہے اور دشمنوں کی چالوں اور سازشوں سے بھی مطلع رہے ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہوتا کہ اس طرح سے کسی قسم کے عجز اور ناتوانی کا امکان باقی نہ رہے کیونکہ اس سے توکل کرنے والوں کے دل متزلزل ہوجاتے ہیں ۔
پانچویں شر ط یہ ہے کہ کائنات کی حاکمیت اور نظام ِ امور اس کے قبضہ ٴ قدرت میں ہو۔
ہر ایک کو معلوم ہے کہ یہ صفات صرف اور صرف خدا وند عالم کی ذاتِ وا لا صفات ہی میں جمع ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر طوفان ِ حوادث کے مقابلے میں قابلِ اطمینان اور غیر متزلزل جائے پناہ اور تکیہ گاہ صرف اور صرف اس کی ذات ہے ۔