Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۴۔ پانی کا پہلا فائدہ

										
																									
								

Ayat No : 45-50

: الفرقان

أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا ۴۵ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا ۴۶وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ۴۷وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا ۴۸لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ۴۹وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ۵۰

Translation

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے کس طرح سایہ کو پھیلا دیا ہے اور وہ چاہتا تو ایک ہی جگہ ساکن بنا دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کی دلیل بنادیا ہے. پھر ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ہے. اور وہی وہ خدا ہے جس نے رات کو تمہارا پردہ اور نیند کو تمہاری راحت اور دن کو تمہارے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت قرار دیا ہے. اور وہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو رحمت کی بشارت کے لئے رواں کردیا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک و پاکیزہ پانی برسایا ہے. تاکہ اس کے ذریعہ مردہ شہر کو زندہ بنائیں اور اپنی مخلوقات میں سے جانوروں اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو سیراب کریں. اور ہم نے ان کے درمیان پانی کو طرح طرح سے تقسیم کیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں لیکن انسانوں کی اکثریت نے ناشکری کے علاوہ ہر بات سے انکار کردیا ہے.

Tafseer

									پانی کے زندگی بخش ہونے کو اس کے پاک کرنے کے مسئلہ کے بعد ذکر کیا گیا ہے اور شاید اس طرف اشارہ ہو کہ ان دونوں کا نزدیکی تعلق ہے (پانی کے زندگی بخش ہونے کے بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد ۱۳میں سورہٴ انبیاء کی آیت ۳۰ کے ذیل میںتفصیل سے بحث کرچکے ہیں )۔
زیر بحث آخری آیت میں قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ہم نے ان آیات کو گونا گوں صورتوں میں ان سے بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں لیکن اکثر لوگوں نے انکار اور کفر کے سوا کچھ نہیں کیا( وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَہُمْ لِیَذَّکَّرُوا فَاٴَبَی اٴَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُورًا) ۔
اگر چہ بہت سے مفسرین جیسے مرحوم شیخ طوسی نے تفسیر تبیان میں ، علامہ طبا طبائی نے تفسیر المیزان میں اور بعض دوسرے مفسرین نے ” صرفناہ“ میں ”ہ“ کی ضمیر کو بارش کی طرف پلٹا یا ہے جس کا مفہوم یہ ہوگا ” ہم بارش کے قطروں کو زمین کی مختلف سمتوں اور علاقوں میں بھیجتے ہیں اور اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں تاکہ وہ خدا کی اس عظیم نعمت کو یاد رکھیں “۔
لیکن حق یہ ہے کہ یہ ضمیر قرآن اور قرآنی آیات کی طرف لوٹ رہی ہے کیونکہ یہ تعبیر ( فعل ماضی اور مضارع کی صورت میں ) قرآن مجید کے دس مقامات پر آئی ہے جن میں سے نو جگہوں پر تو واضح طور پر قرآنی آیات اور بیانات کی طرف لوٹ رہی ہے اور بہت سے مقامات پر” لیذکروا“ یا اس قسم کا لفظ اس کے فوراً بعد آیا ہے ۔ بنابر یں یہ بعید معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر اس تعبیر کا دوسرا مفہوم ہے ۔
اصولی طور پر ”تصرف“ کا مادہ تبدیل کرنے اور لاٹ پھیر کرنے کے معنی میں آتا ہے جس کی بارش کے پانی سے چنداںمناسبت نہیں ہے جبکہ آیاتِ قرآنی سے یہ زیادہ مناسبت رکھتا ہے کیونکہ یہ مختلف انداز میں بیان ہوئی ہیں ،کبھی وعدے کی صورت میں ، کہیں وعید کی حالت میں ،کہیں پر امر ہے کہیں پر نہی ہے اور کسی مقام پر گزشتہ دنوں کی سر گزشت کی صورت میں ۔