Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ ”بور“ کیا ہے ؟

										
																									
								

Ayat No : 17-19

: الفرقان

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ۱۷قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ۱۸فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ۱۹

Translation

اور جس دن بھی خدا ان کو اور ان کے خداؤں کو جنہیں یہ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے سب کو ایک منزل پر جمع کرے گا اور پوچھے گا کہ تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ ازخود بھٹک گئے تھے. تو یہ سب کہیں گے کہ تو پاک اور بے نیاز ہے اور ہمیں کیا حق ہے کہ تیرے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنائیں اصل بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے بزرگوں کو عزّت دنیا عطا کردی تو یہ تیری یاد سے غافل ہوگئے اس لئے کہ یہ ہلاک ہونے والے لوگ ہی تھے. دیکھا تم لوگوں نے کہ تمہیں وہ بھی جھٹلا رہے ہیں جنہیں تم نے خدا بنایا تھا تو اب نہ تم عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہو اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے گا اسے ہم بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے.

Tafseer

									”بور“ کالفظ ”بوار “ سے لیا گیا ہے جو اصل میں کسی چیز کی سخت کسا و بازی کے معنی میں ہے اور چونکہ کسا و بازی کی شدت اس کے فاسد ہونے کا سبب بن جاتی ہے جیسا کہ عربوں کی ضرب المثل ہے ”کسد حتیٰ فسد“ لہٰذا یہ کلمہ فاسد ہونے اور ہلاک ہوجانے کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اس بنجر زمین کو ”بائر“ کہتے ہیں جو درختوں ، پھولوں اور سبزے سے خالی ہوتی ہے کیونکہ در حقیقت وہ مردہ اور فاسد ہو چکی ہوتی ہے ۔
بنابرین ” کانوا قوماًبوراً“ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امراء کا یہ گروہ خوشحال او رمادی زندگی میں مستغرق ہو کر خدا اور قیامت کو فراموش کرچکا ہے اور اس کا دل بنجر زمین کی مانند خشک ہو چکے ہیں اب ان سے نہ تو انسانیت کی سر بلندی کے لئے قیمتی پھولوں کی توقع ہے اور نہ ہی معنوی زندگی اور فضیلت کے میووں کی ۔
ان قوموں کے حالات کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے جو آج ناز و نعمت میں غرق خدا اور خلق خدا سے بے خبر ہیں تو آیت کے عمیق معانی کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کس طرح اخلاقی فساد کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں اور فضائل ِ انسانی کے میوے ان کی بنجر زمین سے کس طرح ناپید ہو چکے ہیں(1) ۔
 1۔ بعض لوگ ”بور“ کو مصدر سمجھتے ہیں جو کبھی کبھار اس کے فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور واحد تثنیہ اور جمع کے صیغے کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض نے اسے ”بائر“ کی جمع مانا ہے۔