Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند نکات

										
																									
								

Ayat No : 11-16

: الفرقان

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا ۱۱إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا ۱۲وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ۱۳لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا ۱۴قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا ۱۵لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا ۱۶

Translation

حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے قیامت کا انکار کیا ہے اور ہم نے قیامت کا انکار کرنے والوں کے لئے جہنم ّمہیاّ کردیا ہے. جب آتش جہنم ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو یہ لوگ اس کے جوش و خروش کی آوازیں سنیں گے. اور جب انہیں زنجیروں میں جکڑ کر کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے تو وہاں موت کی رَہائی دیں گے. اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو آواز دو. پیغمبر علیھ السّلامآپ ان سے پوچھئے کہ یہ عذاب زیادہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی کی جنت ّجس کا صاحبان هتقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے اور وہی ان کی جزا بھی ہے اور ان کا ٹھکانا بھی. ان کے لئے وہاں ہر خواہش کا سامان موجود ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہ پروردگار کے ذمہ ایک لازمی وعدہ ہے.

Tafseer

									۱۔اس نکتے کی طرف بھی توجہ کرنا چاہیئے کہ مندرجہ بالا آیات میں ایک مقام پر تو ”خلد“ اور ہمیشگی کو بہشت کی صفات کے طور پر بیان فرما یا گیا ہے اور دوسری جگہ اہل بہشت کے ”خلد“اور ہمیشہ رہنے کی حالت بیان کی گئی ہے اور یہ دونوں چیزیں ہیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ بہشت بھی ہمیشہ کے لئے ہے اور اس میں رہنے والے بھی وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔
۲۔”لھم فیھامایشاء ون“(جو کچھ وہ چاہیں گے بہشت میں موجود ہو گا )کا جملہ جہنمیوں کے بارے میں آنے والے اس جملہ کے ٹھیک مقابل میں ہے :
وحیل بینھم و بین مایشتھون 
۳۔بہشت کے بارے میں ”مصیر “(ٹھکانا،لوٹ آنے کی جگہ ) کو”جزاء“ کے بعد ذکر کیا گیا ہے ۔در حقیقت جزا کے مفہوم میں جو کچھ آسکتا ہے یہ اسی کی تاکید ہے اور جہنمیوں کے ٹھکانے اور ان کی سزا کا متقابل نقطہ ہے جوسابقہ آیات میں ذکر ہو چکا ہے ان کے ہاتھ پاوٴں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور خود ایک تنگ جگہ میں مقید ہوں گے۔
۴۔”کان علی ربک وعداً مسئولاً“کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین اپنی دعا وٴں میں تمام نعمتوں سمیت بہشت کی درخواست کرتے ہیں گویا وہ ”سائل“ ہیں اور خدا وند عالم”مسئول عنہ“ ہے جیسا کہ خدا وند عالم سوہٴ آل عمران کی آیت ۱۹۴ میں مومنین کا قول بیان کرتاہے :
ربنا اٰتنا ما وعدتناعلیٰ رسلک
”اے ہمارے پر ور دگار!جو کچھ تو نے ہمارے بارے میں اپنے رسولوں سے وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں عنایت فرمایا ۔“
نیز زبان حال سے یہ د ر خواست تمام مومنین کی ہے کیونکہ جو شخص بھی اس کے فرمان کی اطاعت کرتا ہے زبان حال کے ساتھ اس کی یہی درخواست ہے ۔
اسی طرح فرشتے بھی مومنین کے بارے میں خدا سے یہی درخواست کرتے ہیں جیسا کہ سورہ ٴ مومن کی آیت ۸ میں ہے :
ربنا و ادخلھم جنات عدن التی وعدتھم 
” اے ہمارے پر وردگار !تونے مونین کے ساتھ بہشت کے جن جاودانی باغات کا وعدہ فرمایا تھا ان میں انھیں داخل فرما۔“
یہاں پر ایک اور تفسیر بھی ملتی ہے اور وہ یہ کہ ” مسئولا“ کا کلمہ خدا وند عالم کے حتمی وعدے کی تاکید ہے یعنی وہ وعدہ اس حتمی ، وقطعی اوریقینی ہے کہ مومنین اس کا مطالبہ خدا سے کرسکتے ہیں ۔ یہ بعینہ ایسے ہے جیسے ہم کسی سے کوئی وعدہ کریں اور اسے یہ حق بھی دے دیں کہ جب چاہے ہم سے اس کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے ۔
البتہ اگر ان تمام معنی کو” مسئولا“کے وسیع مفہوم میں جمع کردیں تو کوئی حرج نہیں ۔ 
۵۔”لھم فیھا مایشاوٴن“ ( جوکچھ وہ چاہیں گے وہاں موجود ہوگا)کے جملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ لوگوں کے لئے یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر جملے کے وسیع مفہوم کو سامنے رکھیں تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ مثلا ً اگر بہشتی لوگ انبیاء اور اولیاء کے مقام کو بھی خواہش کریں تو وہ انھیں مل جائے گا یا اگر اپنے گناہگار دوستوں اور رشتہ داروں کی نجات کی خواہش کریں تو وہ بھی پوری ہو جائے گی یا اس قسم کے دوسرے سوالات ۔
لیکن اگر ایک نکتہ کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہو جائے گا وہ یہ کہ اہل بہشت کی آنکھوں کے سامنے سے تمام پردوں کو ہٹا دیا جائے ۔ گا ۔وہ حقائق کو اچھی طرح سمجھ لیں گے اور باہمی تناسب ان کے لئے مکمل طور پر واضح ہو جائے گا ۔ وہ کبھی اس بارے میں سوچیں گے بھی نہیں کہ خدا سے ایسی چیزوں کی درخواست کریں جیسے ہم دنیا میں اس بات کا تقاضا نہیں کرسکتے کہ پرائمری کلاس کا ایک طالب علم یونیورسٹی کا پروفیسر بن جائے ۔ آیا اس طرح کی باتیں دنیا میں کسی عقل مند کے ذہن میں آسکتی ہیں ؟ اگر یہاں پر ایسا نہیں ہے تو وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوسکتا۔
ان سب چیزوں سے قطع نظر ان کی خواہشات خداوند عالم کی مرضی کے تابع ہو ں گی ۔ وہ وہی کچھ چاہیں گے جوخداچاہے گا ۔