۲۔ برائی کا جواب بھلائی سے
قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ ۹۳رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ۹۴وَإِنَّا عَلَىٰ أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ ۹۵ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ۹۶وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ۹۷وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ۹۸
اور آپ کہئے کہ پروردگار اگر جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا ہے مجھے دکھا بھی دینا. تو پروردگار مجھے اس ظالم قوم کے ساتھ نہ قرار دینا. اور ہم جس عذاب کا ان سے وعدہ کررہے ہیں اسے آپ کو دکھادینے کی قدرت بھی رکھتے ہیں. اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعہ رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں. اور کہئے کہ پروردگار میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں. اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آجائیں.
سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں سے مقابلے کا ایک موٴثر ترین طریقہ یہ ہے کہ انھیں برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دیا ہے، یہ وہ مقام ہے کہ ان کے ضمیر کے اندر ایک ہیجان پیدا ہوگا اور ان کا ضمیر ہی ان کی برائیوں پر انھیں سخت ملامت کرے گا اور حق یاطل کے موازنے میں ان کا ضمیر حق کا ساتھ دے گا، بہت سے مواقع پر یہی امر دشمن کو مائل کردیتا ہے کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی ہے ۔
رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کی سیرت اور عملی زندگی میں ہم نے بہت دیکھا ہے کہ انھوں نے ایسے افراد یا گروہوں کا جواب اچھائی کے ساتھ دیا ہے کہ جو جدید ترین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں، ایسے لوگوں سے ان پیشواوٴں نے محبّت کا سلوک کیا ہے اور یہی امر ان کے روحانی انقلاب اور راہِ حق پر آجانے باعث بنا ہے ۔
قرآن نے مندرجہ بالا آیات میں اور دیگر کئی مقامات پر مسلمانوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ برائیوں کا اس طریقے سے مقابلہ کریں ۔ یہاں تک کہ سورہٴ ”حم السجدہ“ کی آیت ۳۴میں فرمایا گیا ہے:
<فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَاٴَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ
”اس کام کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نہایت سخت دشمن تمھارے گرم جوش دوست بن جائیں گے“
لیکن، یہ بات بنا کہے واضح ہے کہ یہ حکم خاص مواقع کے لئے، ایسے مواقع کہ جہاں دشمن اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائے اور اسے کمزوری پر محمول نہ کرے اور اس کی جرئت وجسارت میں اضافہ نہ ہو ۔
نیز اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ سازشوں اور شیطانی وسوسوں کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے ۔
شاید اسی بناء پر مندرجہ بالا حکم کے فوراً بعد قرآن، رسول الله کو حکم دیتا ہے کہ شیطانی وسوسوں اور شیطانوں کے اپنے ہاں آنے سے خدا کی پناہ مانگو ۔