۱۔ ”ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ“ کیا ہے؟
قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ ۹۳رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ۹۴وَإِنَّا عَلَىٰ أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ ۹۵ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ۹۶وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ۹۷وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ۹۸
اور آپ کہئے کہ پروردگار اگر جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا ہے مجھے دکھا بھی دینا. تو پروردگار مجھے اس ظالم قوم کے ساتھ نہ قرار دینا. اور ہم جس عذاب کا ان سے وعدہ کررہے ہیں اسے آپ کو دکھادینے کی قدرت بھی رکھتے ہیں. اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعہ رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں. اور کہئے کہ پروردگار میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں. اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آجائیں.
”ھمزات“ ”ھمزة“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے شدّت کے ساتھ دفع اور تحریک۔ حرف ہمزہ کو اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ گلے کے آخری حصّے سے شدت کے ساتھ نکلتا ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ”ھمز“ ”غمز“ اور ”رمز“ کے ایک ہی معنی ہیں البتہ ”رمز“ خفیف مرحلے کے لئے ہے ”غمز“ شدید تر اور ”ھمز“ نہایت شدید مرحلے کے لئے ہے(1) ۔
”شیاطین“ جمع ہے اور اس کے مفہوم میں جنوں اور انسانوں میں موجود تمام پنہاں وآشکار شیطان شامل ہیں ۔
تفسیر علی ابن ابراہیم میں ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف مقامِ عصمت کے حامل ہونے کے باوجود اس سے یہ دعا کرتے ہیں دو سروں کی حالت واضح ہے، لہٰذا تمام مومنین کو چاہیے کہ وہ اپنے مالک ومدبر پروردگار سے دعا کریں کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی انھیں اپنے حال پر نہ چھوڑے، نہ صرف شیطانی وسوسوں سے بچائے بلکہ ان کی محفلوں کو بھی شیطانی وجود سے پاک رکھے، راہِ حق کے تمام راہیوں کو چاہیے کہ شیطانی وسوسوں سے ڈرتے رہیں، اور ہمیشہ اپنے تئیں پناہِ خدا میں دیئے رکھیں (2) ۔
1۔ تفسر ابوالفتوح رازی .
2 ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۵۲.