خدا مختلف طریقوں سے بیدا رکرتا ہے
وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ۷۵وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ ۷۶حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ۷۷وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ ۷۸وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ۷۹وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ۸۰
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف کو دور بھی کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے. اور ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں. یہاں تک کہ ہم نے شدید عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی میں مایوس ہوکر بیٹھ رہے. وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرتے ہو. اور اسی نے تمہیں ساری زمین میں پھیلادیا ہے اور اسی کی بارگاہ میں تم اکٹھا کئے جاؤ گے. وہی وہ ہے جو حیات وموت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن اور رات کی آمدورفت ہے تو تم عقل کیوں نہیں استعمال کرتے ہو.
گذشتہ آیات میں ان حیلے بہانوں کا ذکر تھا کہ جو منکرینِ حق دعوت انبیاء کی مخالفت کرتے ہوئے پیش کرتے تھے، زیرِ نظر آیات میں اتمام حجّت کے لئے اور ا ن کی بیداری کے لئے مختلف حوالوں سے گفتگو کی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: کبھی ہم ان پر اپنی رحمت نازل کرتے ہیں تاکہ وہ بیدار ہوجائیں، لیکن ”اگر ان کی مشکلات کو دور کرکے ہم ان پر لطف کریں، اور نعمتوں سے نوازیں تو ان کی خرابی اس حد تک جا پہنچی ہے تو وہ پھر بھی سرکشی پر اڑے رہتے ہیں اور اسی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں (وَلَوْ رَحِمْنَاھُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِھِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُونَ) ۔
اور کبھی سخت حوادث کے ذریعے انھیں بلایتا جاتا ہے تاکہ اگر وہ رحمت ونعمت کے ذریعے بیدار نہیں ہوئے تو اس راستے سے بیدار ہوجائیں لیکن اس کا ان پر اثر نہیں ہوتا کیونکہ ”ہم نے انھیں گرفتارِ عذاب کیا ہے، لیکن وہ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے ہیں اور نہ انھوں نے
کسی اکساری کا اظہا ر کیا ہے (وَلَقَدْ اٴَخَذْنَاھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُونَ) (1) ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ”متضرع“ بنیادی طور پر ”ضرع“ سے پریشان کے معنیٰ میں ہے اور ”تضرع“ کا معنیٰ ہے ”اس نے دودھ دوہا“ بعد ازاں یہ لفظ خضوع وانکساری کے ساتھ سرتسلیم خم نہیں کرنے کا مفہوم استعمال ہونے لگا ۔
یعنی ان دردناک حوادث پر بھی غرور وسرکشی اور خود کشی کو ترک نہیں کرتے اور حق کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے یہ جو چند ایک روایات میں ”تضرع“ کا معنیٰ دعا اور نماز کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا یبان ہوا ہے ، درحقیقت یہ اس کے وسیع معنیٰ کا ایک مصداق ہے ۔
بہرحال ہم ان بیدار کُن رحمتوں، نعمتوں اور سزاوٴں کو جاری رکھیں گے اور وہ بھی اپنی سرکشی اور ہٹ دھرمی کو جاری رکھیں گے ”یہاں تک کہ ہم اپنے شدید عذاب کا دروازہ کھول دیں گے اور اس میں ایسے گرفتار ہوں گے کہ آخرکار بالکل مایوس ہوجائیں (حَتَّی إِذَا فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیدٍ إِذَا ھُمْ فِیہِ مُبْلِسُونَ) (2) ۔
اللهتعالیٰ دراصل دو طرح کی سزا دیتا ہے ”تربیتی سزا“ معاشرے کو پاک دینے والی سزا“۔
پہلی قسم کی سزا کا مقصد یہ ہے کہ گناہگاروں پر کچھ سختی کی جائے تاکہ انھیں اپنی ناتوانی کا احساس ہوجائے اور وہ غرور وتکبر کا راستہ ترک کردیں ۔
دوسری قسم کی سزا ناقابل اصلاح افراد کے لئے ہے، یہ سزا ایسے افراد کے لئے ہے جو اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرچکے ہیں تاکہ انھیں اب اس نظام خلقت میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور وہ انسانوں کے ارتقاء وکمال کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ اس سزا کے ذریعے معاشرے ان کے وجود سے پاک کردیا جاتا ہے ۔
مفسرین کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ ”بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِید“ (دردناک عذاب کا دروازہ) سے کیا مراد ہے ان میں بہت سوں نے اس سے موت اور اس کے بعد عذابِ قیامت مراد لی ہے، بعض دوسروں نے اسے شدید قحط کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف سے نفرین کے باعث چند سال تک مشرکین کو دامن گیر رہا، یہاں کہ ان کے ہاں سے اناج بالکل ختم ہوگیا اور وہ ایسی چیزیں کھانے پر مجبور ہوئے کہ جنھیں عام حالات میں کوئی شخص کھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔
بعض نے اسے وہ شدید عذاب سمجھا ہے کہ جو جنگ بدر میںمسلمانوں کی تلواروں کی ضربوں کی صورت میں مشرکین کو لاحق ہوا ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ آیت کسی خاص گروہ کی طرف اشارہ نہ ہو بلکہ عذاب الٰہی کے بارے میں ایک عمومی قانون بیان کررہی ہے جس کا آغاز رحمت ہو، پھر بھی تربیتی سزا اور آخرکار نابود کردینے والا عذاب ۔
اس بیان کے بعد قرآن ایک اور پہلو سے بات کرتا ہے، اب ان کے احساسِ تشکر کو ابھارنے کے لئے نعمات الٰہی کا ذکر کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے۱ وہ خدا وہ کہ جس نے تمھیں کان، آنکھ اور دل (عقل) سے نوازا ہے لیکن تم بہت کم ہی اس کا شکر بجالاتے ہو (وَھُوَ الَّذِی اٴَنشَاٴَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَالْاٴَفْئِدَةَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ(
کان، آنکھ اور عقل کا ذکر اس بناء پر ہے کہ پہچان اور معرفت کے لئے انسان کے پاس یہی تین ذرائع ہیں، حسّی امور انسان عام طور پر آنکھ اور کان کے ذریعے معلوم کرتا ہے، جبکہ غیر حسی امور قوتِ عقل کے ذریعے معلوم کرتا ہے ۔
ان دو ظاہر حواسی یعنی بصارت اور سماعت کی اہمیت سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم اس شخص کی حالت کو مدنظر رکھیں کہ جو ان سے محروم ہے، اس کی دنیا کتنی محدود اور کتنی تاریک ہوتی ہے اور اس کا جہان بیداری اورآگاہی سے کس قدر تہی ہوتا ہے، یہاں تک کہ انسان دونوں سے محروم ہونے کی وجہ سے عملی طور پر اپنے بہت سے حواس کھو بیٹھتا ہے، قوّت گویائی ہمیشہ قوّت سماعت کے ذریعے کام میں لائی جاتی ہے (مادرزاد بہرے ہمیشہ گونگے ہوتے ہیں اگرچہ ان کی زبان میں کوئی نقص نہیں ہوتا ہے) ۔
اس طرح یہ دو حواس عالمِ محسوسات کی کلید ہیں، پھر عقل کی نوبت آتی ہے کہ عالمِ محسوسات اور جہاں ماوراءِ طبیعت کی کلید ہے، علاوہ ازیں وہ امور جو پہلے دونوں حواس کے دائرے میں آتے ہیں ان کے بارے میں تجزیہ کرنے، نتیجہ اخذ کرنے، جائزہ لینے اور جمع وتفریق کرنے کا کام بھی عقل کے ذریعے انجام پاتا ہے ۔
جو لوگ شناخت ومعرفت کے یہ تین ذرائع دستیاب ہونے پر شکر گزار نہیں کیا وہ قابل ملامت نہیں ہیں ۔ ان تین ذرائع کی باریکیوںپر غور کیا جائے تو کیا یہ امر کے لئے کافی نہیں کہ انسان اپنے خالق سے آشنا ہوجائے ۔
آنکھ اور کان کی نعمت کا ذکر زیرِ بحث آیت میں عقل سے پہلے آیاہے ، ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ماہرین کے بقول سب سے پہلے نومولود کے کے کان کام شروع کرتے ہیں اور آنکھیں روشنی کی شعاعوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ ولادت کے بعد بچے کی آنکھیں ایک مدت تک بند رہتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ روشنی سے مانوس ہوجاتی ہیں، جبکہ کانوں کی صورت نہیں ہے، یہاں تک کہ بعض ماہرین کے نظریئے کے مطابق بچّہ عالم جنین میں سننے کی قدرت رکھتا ہے اور ماں کے دل کی دھڑکن سنتا ہے (3) ۔
ان تین نعمتوں کا ذکر در حقیقت ان نعمتوں کی معطی کی معرفت کے لئے ابھارتا ہے اور منعم حقیقی کی سناخت کے لئے انسان کو تحریک دیتا ہے، جیسا کہ علماءِ عقائد نے شکر منعم کی ضرورت کو معرفتِ خدا کے عقلی طور پر واجب ہونے کی بنیاد قرار دیا ہے ۔
اگلی آیت میں الله کی نہایت اہم شان، یعنی اس خاکی زمین سے انسان کی خلقت کی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں پیدا کیا (وَھُوَ الَّذِی ذَرَاٴَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ)(4) ۔
اور چونکہ تم زمین سے پیدا ہوئے ہو، لہٰذا دوبار ہ زمین کی طرف ہی پلٹ جاوٴگے، اور پھر ایک مرتبہ ”تم قبروں سے اٹھاکر اُس کی طرف محشور کئے جاوٴگے (وَإِلَیْہِ تُحْشَرُونَ) ۔
اگر تم سوچتے کہ بے وقعت مٹی سے تمھاری خلقت ہوئی ہے تو یہ اس امر کے لئے کافی تھا کہ تم حیات عطا کرنے والے کو پہچان لیتے اور پھر تمھیں معاد بھی ممکن دکھائی دیتا ۔
خلقتِ انسان کا مسئلہ بیان کرنے کے بعد قرآن موت وحیات اور روز وشب کی آمد وشد کا ذکر کرتا ہے کہ جو عظیم آیات الٰہی میں سے ہے، ارشاد ہوتا ہے:وہ وہی ہے کہ جوزندہ کرتا اور مارتا ہے اور لیل ونہار کا آنا جانا اُسی کے ہاتھ میں ہے، کیا تم عقل وفکر سے کام نہیں لیتے ہو (وَھُوَ الَّذِی یُحْیِ وَیُمِیتُ وَلَہُ اخْتِلَافُ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ) ۔
ان تین گذشتہ آیات میں معرفت پروردگار کے محرک سے بات شروع کی گئی ہے اور انفس وآفاق کی ہے اہم ترین آیات کے ذکر پر بات ختم کی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ سب کچھ اس دن کے فرمان اور ارادے سے صورت پذیر ہوتا ہے ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ موت وحیات کی خلقت کا ذکر لیل ونہار کے ساتھ آیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صحن عالم ہستی میں نور وخلقت بالکل موت وحیات کی مانند ہے، روشنی کی لہریں جیسے عالم ہستی میں جنبش، خوشی اور حرکت پیدا کرتی ہیں اور تاریکی کے سائے میں خاموش ہوجاتے ہیں ۔ اور ہر دو تدریجی پہلو رکھتے ہیں ۔
یہ نکتہ بیان کیا جاچکا ہے کہ لیل ونہار کے ”اختلاف“ سے مراد ہوسکتا ہے ان کا آنا جانا ہو، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا ”خلف“ اور جانشین ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے تردیجی اختلاف اور فرق کی طرف اشارہ ہو کہ جس سے کے باعث سال کے چار موسم وجود میں آتے ہیں اور یہ فرق عالمِ نباتات میں ایک نظام دقیق کے تحت گردش حیات کی رہنمائی کرتا ہے ۔
بہرحال یہ تمام سائل معرفت الٰہی کے رہنما بن سکتے ہیں، اسی بناء پر آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ”اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ“ کیا تم غور وفکر نہیں اور عقل کو بروئے کار نہیں لاتے؟
1۔ ”استکانوا“ ”سکون“کے مادے سے خشوع وخشوع کے عالم میں سکون ہونے کے معنی میں ہے اسد صورت میں باب افتعال سے ہوگا، اصل میں یہ لفظ ”استکنوا“ تھا، کاف کی فتح کا اشباع ہوا اور وہ الف سے بدل گئی جس کے نتیجے ”استکانوا“ ہوگیا ہے، بعض نے کہا ہے یہ لفظ ”کون“ مادے سے باب ”استفعال“ میں سے ہے جس کا معنی ہے ”خشوع وخضوع کے ساتھ کسی مکان میں طلب استقرار، بہرحال یہ پرورگار کے سامنے بندے کی حالت انکساری کو ظاہر کرتا ہے اور یہ جو بعض نے اسے ”دُعا“ کے معنی میں ذکر کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خشوع وخضوع کا ایک مصداق ہے، تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ لفظ ”کین“ (بروزن ”عین“) کے مادے سے بابِ استفعال سے ہے کیونکہ یہ مادہ خضوع کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اور یہ تمام معانی ایک دوسرے دوسرے سے ہم آہنگ ہیں ۔
2 ۔ ”مبلس“ ”ابلاس“ کے مادہ سے ہے یہ ایسے غم واندوہ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے کہ جو کسی شدید واقعے کے بناء پر اوا اور عام طور پر انسان کو حیرت کا مجسمہ یا ناامید ومایوس کردے ۔
3۔ ان آیات سے قبل آنے والی آیت، ”انّ الذین لایوٴمومنون بالاٰخرة“ اس تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔
4۔ ”ذراٴکم“ ”ذرء“ (بروزن زرع)کے مادے سے تخلق، ایجاد اور اظہار کے معنی میں ہے، لیکن اگر مادہٴ ”ذروة“ (بروزن زرع) ہی ہو تو منشتر کرنے کے معنی میں ہے، ان دونوں مادوں کو ایک دوسرے سے غلط ملط معنا نہیں کرنا چاہیے، ہماری زیرِ بحث آیت سے پہلے مادے سے ہے، (تفسیر نمونہ کی ساتویں جلد، صفحہ۲۶ پ اس سلسلے میں اشتباہ ہوا ہے، اس پر بھی یہی افسوس ہے قارئین کرام وہاں پر اصلاح فرمائیں) ۔