کیا قبلہ کی تبدیلی پیغمبر کو خوش کرنے کے لئے تھی
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ۱۴۴
اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رخ مسجدالحرام کی جہت کی طرف موڑ دیجئے اور جہاں بھی رہئے اسی طرف رخ کیجئے. اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہی برحق ہے اور اللہ ان لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے.
قرآن کہتاہے: قبلة ترضھا (یعنی۔ وہ قبلہ جس سے تو خوش ہے) ممکن ہے اس سے یہ وہم پیدا ہو کہ یہ تبدیلی پیغمبر کو خوش کرنے کے لئے تھی۔ لیکن اگر اس بات کی طرف توجہ کی جائے تو یہ وہم دور ہوجائے گا کہ یہ بیت المقدس تو عارضی قبلہ تھا اور پیغمبر اکرم آخری قبلہ کے اعلام کا انتظار کررہے تھے تا کہ یک طرف تو یہودیوں کی زبان بندی ہوجائے اور دوسری طرف اہل حجازآئیں اسلام کی طرف زیادہ مائل ہوں کیونکہ وہ کعبہ سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔ ضمنا یہ بھی کہ یہ پہلا قبلہ تھا لہذا اس طرف رخ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کوئی نسلی دین نہیں ہے ادریہ بھی کہ اس سے خانہ کعبہ میں بت پرستوں کے موجود بتوں کا بطلان بھی ظاہر ہوجاتا