لنعلم کی تفسیر
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ۱۴۳
اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوںکے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتاہے اور کون پچھلے پاؤں پلٹ جاتا ہے. اگرچہ یہ قبلہ ان لوگوںکے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا. وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے.
لنعلم (تا کہ ہم جان لیں) اور ایسے دیگر الفاظ جو قرآن میں خدا کے لئے استعمال ہوئے اس معنی میں نہیں کہ خدا ایک چیز پہلے سے نہیں جانتا اور اس کا عبد اس سے آشنا ہوتاہے بلکہ اس سے مراد اس چیز کا ثابت ہونا اور خارجی شکل میں ظاہر ہوناہے
اس کی توضیح یہ ہے کہ خداوند عالم اول سے تمام حوادث و موجودات سے واقف ہے اگر چہ وہ اشیاء تدریجا عالم وجود میں آتی ہیں لہذا ان حوادث و موجودات کا حدوث اس کے علم و دانش میں کسی قسم کی زیادتی کا باعث نہیں بنتا بلکہ وہ جس چیز کو پہلے سے جانتا تھا اس کے ذریعے سے وہ عملی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک انجنیر ایک بلڈنگ کا نقشہ تیار کرتاہے اور کہتاہے کہ اس کا م کو اس مقصد کے لئے انجام دیتاہوں تا کہ جو نتیجہ میری نظر میں ہے اسے دیکھوں یعنی اپنے علمی نقشے کو عملی جامہ پہناؤں (البتہ خدا کا علم انسانی علم سے بہت مختلف ہے لیکن یہ مثال کسی حد تک مسئلے کو واضح کردیتی ہے)۔
و ان کانت لکبیرة الا علی الذین ہدی اللہ۔۔۔۔ البتہ خلاف عادت قدم اٹھانا اور بے جا احساسات کے زیر اثر نہ آنا بہت مشکل ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو واقعا خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
() قبلہ کا فلسفہ: یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر بنیادی طور پر قبلہ کی طرف منہ کرنے کا مقصد کیاہے کیا خدا زمان و مکاں سے مافوق و بالاتر نہیں۔ کیا قرآن خود نہیں کہتا:
فاینما تولوا فثم وجہ اللہ۔
جد ھر رخ کرو خدا کو پالوگے۔
اس بناء پر کسی ایک طرف رخ کرنے کا اثر و نتیجہ کیاہے اور وہ بھی اس اصرار سے کہ جہت قبلہ معلوم نہ ہوسکے تو چاروں طرف نماز پڑھنا چاہئیے تا کہ یہ یقین پیدا ہوجائے کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کرچکے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ۔۔۔۔۔
اسلام کے نزدیک اتحاد کی بہت اہمیت ہے اور اسلام ہر ایسے حکم کو واجب یا کم از کم مستحب قرار دیتاہے جو ہم آہنگی اور وحدت کا سبب بنے۔ اب اگر رخ قبلہ معین نہ ہوتا اور ہر شخص کسی ایک طرف منہ کرکے کھڑاہوجاتا تو عجیب نقشہ پیدا ہوجاتاہے۔
بعض مقامات کا پرستش و عبادت سے بہت پرانا تعلق ہے۔ اس لئے کتنی اچھی بات ہے کہ ایک تو وحدت کی حفاظت کے لئے اور دوسرا عبادت کے اصلی مراکز کی طرف زیادہ توجہ کے لئے ایک ہی نقطے کو قبلہ کے طور پر منتخب کرلیاجائے تا کہ تمام اہل جہان عبادت کے وقت اپنے انکار کو ایک ہی نقطے پر مرکز کرلیں اور اس طرح ایسے لا تعداد دائرے کھینچ دیں کہ جن کا ایک ہی مرکز عبادت ہوتا کہ وہ ان کی وحدت کی رمز بن جائے۔
۱۴۴۔قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ اٴَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ
ترجمہ
۱۴۴۔ ہم تمہارے چہرے کو دیکھتے ہیں جسے تم آسمان کی طرف پھیرتے ہو (اور قبلہ نما کے تعیین کے لئے فرمان خدا کے انتظار میں رہتے ہو)۔ اب تمہیں اس قبلہ کی طرف جس سے تم خوش ہو پھیر دیتے ہیں۔اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف کرلو اور تم (مسلمان) جہاں کہیں ہو اپنے چہرے اس کی طرف پھیردو۔ جنہیں آسمانی کتاب دی گئی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ حکم جو ان کے پروردگار کی طرف سے صادر ہواہے۔ درست ہے (کیونکہ وہ اپنی کتب میں پڑھ چکے ہیں کہ رسول اسلام دو قبلوں کی طر ف نماز پڑھیں گے) اور (وہ جو ایسی آیات مخفی رکھتے ہیں) خداوند عالم ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔