وہ امت جوہر لحاظ سے نمونہ بن سکتی ہے
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ۱۴۳
اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوںکے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتاہے اور کون پچھلے پاؤں پلٹ جاتا ہے. اگرچہ یہ قبلہ ان لوگوںکے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا. وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے.
وہ تمام چیزیں جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں کسی امت میں جمع ہوجائیں تو یقینا وہ حق و حقیقت کاہر اول دستہ بن جائے کیونکہ اس کے پروگرام حق کو باطل سے ممتاز کرنے کے لئے میزان و معیار ہوں گے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ کئی ایک روایات میں منقول ہے کہ اہل بیت نے فرمایا:
نحن الامة الوسطی و نحن شہدآء اللہ علی خلقہ و حججہ نی ارضہنحن الشہدآء علی الناسالینا یرجع الغالی و بنایر1 یرجع المقصر
ہم امت وسط ہیں ہم مخلوق پر شاہد الہی ہیں اور زمین پر اس کی حجت ہیں ہم ہیں لوگوں پر گواہ غلو کرنے والوں کو ہماری طرف پلٹنا چاہئیے اور تقصیر کرنے والوں کو چاہئیے کہ یہ راہ چھوڑ کر ہم سے آملیں۔2
جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں ایسی روایات آیت کے وسیع مفہوم کو محدود نہیں کرتیں بلکہ اس امت میں نمونہ و اسوہ کے اکمل مصادیق کا تعارف کراتی ہیں اور ایسے نمونوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو پہلی صف میں موجود ہیں۔
1 ظاہرا یہاں یرجع کی بجائے ویلحق ہونا چاہئیے (مترجم)۔
2 نور الثقلین، ج۱، ص۱۳۴۔