تفسیر
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۱۳۱وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ ۱۳۲وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ۱۳۳وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَىٰ ۱۳۴قُلْ كُلٌّ مُتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ ۱۳۵
اور خبردار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے. اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں ہم آپ سے رزق کے طلبگار نہیں ہیں ہم تو خود ہی رزق دیتے ہیں اور عاقبت صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے. اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے ہیں تو کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کی گواہی نہیں آئی ہے. اور اگر ہم نے رسول سے پہلے انہیں عذاب کرکے ہلاک کردیا ہوتا تو یہ کہتے پروردگار تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی تیری نشانیوں کا اتباع کرلیتے. آپ کہہ دیجئے کہ سب اپنے اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں تم بھی انتظار کرو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کون لوگ سیدھے راستہ پر چلنے والے اور ہدایت یافتہ ہیں.
تفسیر
ان آیات میں پیغبر اکرم کو کئی احکام دیئے گئے ہیں کہ جن سے حقیقت میں عام مسلمان مراد ہیں اور یہ اس بحث کی تکمیل ہے۔ کہ جو صبر و شکبیائی کے سلسلہ میں اور آیات میں
شروع ہوئی ہے۔
پہلے فرمایا گیا ہے : وہ مادی نعمتیں جو ہم نے کفار و مخالفین کے مختلف گروہوں کو دے رکھی ہیں ، تم ہرگز ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنا. (ولا تمدن عینیک الى مامتعنا به أزواجًا
منهم)۔
ہاں "یہ ناپائیدار نعمتیں دنیاوی زندگی کے شگوفے ہیں (زهرة الحيوة الدنيا)۔
ایسے شگوفے ( اور پھول) کہ تو جلدی کھل جاتے ہیں اور (پھر) مرجھا جاتے ہیں اور کھڑے کھڑے ہو کر زمین مگر جاتے ہیں اور چند دنوں سے زیادہ پائیدار نہیں ہوتے۔
اس کے باوجود یہ سب اس لیے ہیں تاکہ ہم انہیں ان کے ذریعہ آزمائیں" ( لنفتنهم فيہ)۔
اور بہرحال "جو کچھ تیرے پروردگار نے تجھے روزی دے رکھی ہے وہ زیادہ بہتر اور پائیدارہے: (ورزق ربك خيرالقی)۔
خدا نے تجھے انواع و اقسام کی نعمتیں عطا کی ہیں۔ ایمان و اسلام قرآن و آیات الٰہی ، حلال و پاکیزہ روزی اور آخرمیں آخرت کی جاوداں اور دائمی نعمتیں ۔ یہ پائیدار اور جادوانی
رزق ہے ۔
بعد والی آیت میں پیغمبراکرم کی روح کو خوش کرنے اور ان کے دل کو تقویت پہنچانے کے لیے فرمایا گیاہے : اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کے انجام دینے کے
لیے پابندی کرو (وامراهلك بالصلوة واصطبر عليها )-
کیونکہ یہ نماز تیرے لیے اور تیرے خاندان کے لیے دل کی پاکیزگی اور صفائی اور روح کی تقویت اور یاد خدا کے دوام کا سبب ہے۔
اس میں شک نہیں کہ لفظ "اهل" کا ظاہر میں پیغمبر اکرمؐ کا بطور کلی خاندان ہے لیکن چونکہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی ہے ، الہذا اس وقت اهل کا مصداق بی بی خدیجہ اور علی
علیہ السلام بھی تھے اور ممکن ہے کہ پیغمبراکرمؐ کے کچھ اور نزدیکیوں کے بارے میں بھی ہو ، لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ خاندان پیغمبرؐ کا دامن بھی وسیع ہوگیا۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ اگر نماز کا حکم تجھے اور تیرے خاندان کو دیا گیا ہے تو اس کے فائدے اور برکات بھی صرف تمہارے ہی لیے ہوں گے "ہم تجھ سے روزی نہیں
چاہتے بلکہ ہم ہی تجھے روزی دیتے ہیں" (لانسئلك رزقا نحن نرزقك)۔
یہ نماز پروردگار کی عظمت میں کوئی اضافہ نہیں کرتی بلکہ تم انسانوں کے لیے سرمایہ "تکامل وارتقا اور تربیت کا اعلی درجہ ہے۔
یا دوسرے لفظوں میں خدا بادشاہوں اور امراء کی طرح نہیں ہے کہ جواپنی قوم اور رعایا سے باج وخراج لیا کرتے تھے اور اپنی اور اپنے مصاحبین کی زندگی کا نظام چلاتے تھے ۔
خدا سب سے بے نیاز ہے اور سب سے بے نیاز مند اور محتاج ہیں۔
درحقیقت تعبیر اسی چیز کے مشابہ ہے کہ جو سوره ذاریات کی آیہ 56تا 58 میں بیان ہوئی ہے :
وماخلقت الجن والانس الا ليعبدون وما اريد منهم من رزق وما
ارید ان يطعمون أن الله هو الرزاق ذو القوة المتين.
میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں، میں ان
سے روزی کا طلب گار نہیں ہوں اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ خدا ہی
سب کو روزی دینے والا ہے اور مستحکم قدرت کا مالک ہے ۔
اور اس طرح سے عبادت کا نتیجہ اور فائدہ براہ راست عبادت کرنے والوں کو بھی پہنچ جاتا ہے اور آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے:عاقبت اور نیک انجام تو تقویٰ اور پرہیزگاری
کے لیے ہی ہے ( والعاقبة للتقوی)۔
جو چیز باقی رہنے والی ہے اور جس کا انجام مفید ، تعمیری اور حیات بخش ہے، وہ تقوٰی اور پرہیزگاری ہی ہے۔ پرہیزگار ہی آخر کار کامیاب ہوں گے اور غیرتی کو شکست کھائیں
گے۔
اس جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس کا مقصد عبادات میں روح تقوٰی اور اخلاص کے لیے تاکید کرنا ہو۔ کیونکہ عبادات کی بنیاد یہی ہے۔ سورہ حج کی آیه 37 میں بیان
ہوا ہے :
" لن ينال الله لومها ولادماؤها ولكن يناله التقوى منكم
قربانی کے جانوروں کے گوشت اور خون خدا نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقویٰ اس تک پہنچا ہے۔
تمہارے اعمال میں سے جو کچھ اس کے مقام قرب میں جا پہنچتا ہے وہ ان کا چمڑا اور ظاہری وجود بھی نہیں ہے بلکہ وہ اخلاص وروح اور سوچ کہ جو اس میں کارفرما ہے، وہی
اس کے مقام قرب تک پہنچتے ہیں۔
بعد والی آیت میں کفار کی ایک بہانہ جوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے. انہوں نے کہا : پیغمبر اپنے پروردگار کے پاس سے ہماری من پسند کا کوئی معجزہ کیوں نہیں
لاتا : ( وقالوا لولايأتينا بايت من ربه)۔
فورا ہی انہیں جواب دیا گیا ہے ، کیا گزشتہ اقوام کی واضح خبریں کہ جو گزشتہ آسمانی کتابوں میں آئی تھیں۔ ان کے لیے نہیں آئیں (کہ جو پے در پے معجزات پیش کرنے کے لیے
تقاضے اور عذر تراشیاں کرتے تھے اور معجزات دیکھنے کے بعد بھی اپنے کفروانکار پر باقی رہتے تھے اور خدا کا شدید عذاب انہیں آپکڑتا تھا۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اگر یہ بھی اسی راہ پر چلیں گے
تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا)۔ (اولم تأتهم بينة مافي الصحف الاولٰی)۔
اس آیت کی تفسیر میں پر احتمال بھی ہے کہ "بینة" سے مراد خود قرآن ہے کہ جو گزشتہ آسمانی کتابوں کے حقائق کو اعلٰی ترین معیار کے مطابق بیان کرنے والا ہے۔ زیر بحث آیت
کہتی ہے، یہ معجزہ کیوں طلب کرتے ہیں اور بہانہ سازی کیوں کر رہے ہیں ۔ کیا یہی قرآن، ان عظیم امتیازات اور خصوصیات کے ساتھ کہ جو گزشتہ آسمانی کتابوں کے حقائق کو اپنے اندر سموئے
ہوئے ہے ، ان کت لیے کافی نہیں۔
اس آیت کی ایک اور تفسیر بھی بیان ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے باوجود اس کے کہ کسی سے درس نہیں پڑھاتھا۔ ایسی واضع ، روشن اور آشکار کتاب لے کرآئے کہ
آسمانی کتابوں کے متوں میں جو کچھ تھا اس کے ہم آہنگ ہے اور یہ بات خود اس کے اعجاز کی ایک نشانی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہؐ کی صفات اور ان کی کتاب ، ان نشانیوں کے ساتھ کہ جو پہلی
آسمانی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں کامل طور پر مطابقت رکھتی ہے اور اس کی حقانیت کی دلیل ہے ۔ ؎1
بہرحال یہ بہانہ سازی کرنے والے، حق طلب لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ ہمیشہ نئی سے نئی بہانہ تراشی میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 پہلی تفسیر "مجمع البیان" میں اور دوسری تفسیر "فی ظلال" میں تیسری تفسیر فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں بیان کی ہے۔ یہ تفاسیر اگرچہ مختلف ہیں، تاہم ان میں آپس میں کوئی
تضاد نہیں ہے ، خصوصا دوسری اور تیسری تفسیر میں ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
" اگر ہم اس قرآن کے نزول اور پیغمبراسلامؐ کے آنے سے پہلے انہیں سزا دے کر ہلاک کر دیتے اور وہ یہ کہتے کہ پروردگار! تو نے ہمارے لیے کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا تاکہ وہ تیری آیات کی
پیروی کر تے ، اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہو جائیں " ؛ : ( ولوانا واهلاهوبعذاب من قبل كقالوا ربنالو ارسلت الينا رسوفتشبع أياتك من قبل ان نزل ونخزی)
لیکن اب جبکہ یہ عظیم پیغمبر ایسی با عظمت کتاب لے کر ان کے پاس آیا ہے تو ہر روز نئی سے نئی بات کرتے ہیں اور حق سے فرار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے
رہتے ہیں۔
انہیں خبردار کردو اور یہ کہہ دو کہ ہم اور تم سب کے سب انتظار کر رہے ہیں : ( قل كل متربص) ہم تو تمھارے بارے میں خدائی وعدوں کے انتظار میں ہیں اور تم بھی اسی انتظار
میں اور مشکلات ومصائب تمہیں دامن گیر ہوں۔
اب جب کہ یہ بات ہے تو انتظار کرو (فتربصوا)۔
لیکن تم بہت جلد جان لو گے کہ را مستقیم اور دین حق پرکون لوگ ہیں اور حق کی منزل اور خدا کی جادواں نعمت کی طرف ہدایت پانے والے کون ہیں (فتعلمون من اصحاب الصراط
السوي ومن اهتدی)۔
اوراس قاطع اور پرمعنی جملے کے ساتھ قرآن ہٹ دھرم اور بہانہ ساز منکرین سے اپنی گفتگو کوختم کردیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ چونکہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی تھی اور اس زمانے میں پیغمبراکرمؐ اور مسلمان دشمنوں کی طرف سے سخت دباؤ میں تھے ، خدا اس سورہ کے آخر میں ان کی دل
دلجوئی کرتا ہے ، کبھی کہتا ہے کہ ان کا مال و دولت اس جلدی گزر جانے والی دنیاکا سرمایا ہے اور ان کی آزمائش اور امتحان کے لیے ہے ، یہ تمہاری آنکھوں کو اپنی طرف ـــــــ متوجہ نہ کرے۔
اور کبھی نماز اور صبر و استقامت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ان کی معنومی قوت کو دشمنوں کی کثرت کے مقابلے میری تقویت دے.
اور آخر میں مسلمانوں کو بشارت دی گئی ہے کہ اگر یہ گروه ایمان نہ لائیں گے تو ان کا انجام بہت تاریک ہوگا کہ جس کے انتظار میں انہیں رہنا چاہیئے۔
پروردگارا ! ہمیں ہدایت یافتہ اور صراط مستقیم پر چلنے والوں میں سے قرار دے۔
خداوندا ! ہمیں وہ قدرت اور رعب عطا فرما کہ (جس سے) تو ہم دشمنوں کی کثرت سے ڈریں اور نہ ہی سخت حوادث اور مشکلات سے ہراساں ہوں ، ہٹ دھری اور بہان بازی کو ہم
سے دور رکھے اور ہمیں حق قبول کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔
سورہ طہ کا اختتام
جمعرات 20 جمادی الثانی (روز والادت
باسعادت بانوئے اسلام فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا
سال 1402 قمری