Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کیا آدم گنا کے مرتکب ہوئے تھے ؟

										
																									
								

Ayat No : 115-122

: طه

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ۱۱۵وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ ۱۱۶فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ ۱۱۷إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ ۱۱۸وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ ۱۱۹فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَىٰ ۱۲۰فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ۱۲۱ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ ۱۲۲

Translation

اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد لیا مگر انہوں نے اسے ترک کردیا اور ہم نے ان کے پاس عزم و ثبات نہیں پایا. اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ تم سب آدم کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا اور اس نے انکار کردیا. تو ہم نے کہا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے کہیں تمہیں جنت ّسے نکال نہ دے کہ تم زحمت میں پڑجاؤ. بیشک یہاں جنتّ میں تمہارا فائدہ یہ ہے کہ نہ بھوکے رہو گے اور نہ برہنہ رہو گے. اور یقینا یہاں نہ پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ کھاؤ گے. پھر شیطان نے انہیں وسوسہ میں مبتلا کرنا چاہا اور کہا کہ آدم میں تمہیں ہمیشگی کے درخت کی طرف رہنمائی کردوں اور ایسا لَلک بتادوں جو کبھی زائل نہ ہو. تو ان دونوں نے درخت سے کھالیا اور اور ان کے لئے ان کا آ گا پیچھا ظاہر ہوگیا اور وہ اسے جنتّ کے پتوں سے چھپانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار کی نصیحت پر عمل نہ کیا تو راحت کے راستہ سے بے راہ ہوگئے. پھر خدا نے انہیں چن لیا اور ان کی توبہ قبول کرلی اور انہیں راستہ پر لگادیا.

Tafseer

									  کیا آدم گنا کے مرتکب ہوئے تھے ؟ 
 اگرچہ لفظ "عصیان" آج کے عرف میں گناہ کے معنی میں ہی بولا جاتاہے لیکن لغت میں اطاعت و فرمان سے باہر ہو جانے کے معنی میں ہے (چاہے فرمان وجوبی ہو یا استحبابي ) لہذا 

لفظ عصیان سے لازمی طور پر ترک واجب یا ارتکاب عوام کا معنی مراد نہیں ہے۔ بلک ایک مستحب کا ترک یا مکروہ کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے۔ 
 اس سے قطع نظر کرتے ہوئے "امرونہی" کبھی ارشادی پہلو بھی رکھتے ہیں، مثلا ڈاکٹر کے اوامر و نواہی جور بیمار کو حکم دیا ہے کہ فلاں دوا کھاؤ اور فلاں غیرمناسب غذا سے 

پرہیز کرو . اس میں شک نہیں کہ اگر بیمار طبیب کے حکم کی مخالفت کرے گا تصرف خود کو ہی نقصان پہنچاۓ گا۔ کیونکہ اس نے طبیب کے ارشاد اور روایات کی پرواہ نہیں کی۔ 
 خدا نے بھی آدم سے فرمایا تھا کہ ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانا کیونکہ اگر اسے کھاؤگے تو جنت سے باہر نکلنا پڑے گا اور زمین میں بے حد رنج و تکلیف میں جا گرفتار ہو جاؤگے۔ 

انہوں نے اس امر ارشادی کی مخالفت کی اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا۔ 
 یہ بات اس چیز کی طرف توجہ کرتے ہوئے زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ آدم کے جنت میں ٹھہرنے کا زمانہ تو تجبراتی تھا تکلیف اور ذمہ داری کا زمانہ نہیں تھا۔ 
 اس سے قطع نظر عصیان وگناہ بھی معطلق پہلو رکھتے ہیں یہ سب کے لیے بغیرکسی استثناء کے گناہ ہوتے ہیں مثلا جھوٹ بولنان ظلم کرنا، 
حرام مال کھانا اور بھی وہ نسبتی پہلو رکھتے ہیں یعنی یہ ایسا کام ہوتا ہے کہ اگر ایک انسان سے سرزد ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ کوئی گناہ نہیں ہوتا بلکہ کبھی اس کی نسبت سے وہ ایک مطلوب اور 

شائستہ عمل ہوتا ہے لیکن اگر وہی کام کسی دوسرے سے سرزد ہوجائے تو اس کے مرتبہ ومقام کا کرتے ہوئے وہ غیر مناسب ہوتا ہے.    مثل ایک ہسپتال بنانے کے لیے لوگوں سے 

امداد کی اپیل کی جاتی ہے۔ ایک کاریگر آدمی اپنی ایک دن کی مزدوری کہ وہ بھی چند روپے سے زیادہ نہیں ہوتی دے دیتا ہے۔  یہ عمل اس کی نسبت سے ایثار اور اچھا عمل ہے، کامل طور پر مطلوب و 

پسندیدہ ہے لیکن اگر ایک دولت مند آدمی بھی اتنی ہی مقدار میں مدد کرے تو نہ صرف یہ کہ یہ عمل اس کی طرف سے ناپسندیدہ ہے بلکہ ملامت و مذمت کے لائق ہے حالانکہ اصولی طور پر نہ صرف 

یہ کہ اس نے کوےی حرام کام نہیں کیا ہے بلکہ ظاہر ایک کار خیر میں مدد بھی کی ہے۔ 
 یہ وہی بات ہے کہ جسم ہم یوں کہتے ہیں :  
  حسنات الابرار سيئات المقربين 
  نیک لوگوں کی اچھائیاں مقربین کے لیے گناه ہیں۔ 
 نیز یہ وہی چیز ہے کہ جو ترک اولی کے عنوان سے مشہور ہوئی ہے اور ہم اسے گنا وسمتی سے یاد کرتے ہیں کہ وہ نہ تو گناہ ہے اور  نہ ہی مقام عصمت کےعلامت ہے۔ 
  اسلامی احادیث میں بھی کبھی کبھی مستحبات کی مخالفت پر معصیت کا اطلاق ہوا ہے ۔ ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے منقول کہ آپ نے روزانہ کی نافلہ نمازوں کے بارے 

میں فرمایا :
  یہ سب مستحب ہیں واجب نہیں ہیں ... ...... .. اور جو شخص ان کو ترک کرے اس نے 
  معصیت کی کیونکہ مستحب ہے کہ جب انسان کسی نیک کام کو انجام دیتا ہے تو اس کام کو جاری
  رکھنا چاہیئے۔
  اس موضوع اور حضرت آدم سے مربوط یا دوسرے مسائل اور ان کے جنت سے باہہ نکلنے کے بارے میں چھٹی جلد سوره اعراف کی آیہ 19 سے بعد اورجلد اول سوره بقر کی آیہ 

30 تا 38 کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں، یہاں تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔