قیامت کا ہولناک منظر
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا ۱۰۵فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا ۱۰۶لَا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا ۱۰۷يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا ۱۰۸يَوْمَئِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا ۱۰۹يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا ۱۱۰وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ۱۱۱وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا ۱۱۲
اور یہ لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ قیامت میں ان کا کیا ہوگا تو کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار انہیں ریزہ ریزہ کرکے اڑادے گا. پھر زمین کو چٹیل میدان بنادے گا. جس میں تم کسی طرح کی کجی ناہمواری نہ دیکھو گے. اس دن سب داعی پروردگار کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اور کسی طرح کی کجی نہ ہوگی اور ساری آوازیں رحمان کے سامنے دب جائیں گی کہ تم گھنگھناہٹ کے علاوہ کچھ نہ سنو گے. اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو. وہ سب کے سامنے اور پیچھے کے حالات سے باخبر ہے اور کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے. اس دن سارے چہرے خدائے حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوں گے اور ظلم کا بوجھ اٹھانے والا ناکام اور رسوا ہوگا. اور جو نیک اعمال کرے گا اور صاحبِ ایمان ہوگا وہ نہ ظلم سے ڈرے گا اور نہ نقصان سے.
تفسیر
قیامت کا ہولناک منظر:
چونکہ گزشتہ آیات میں اختتام دنیا اور آغاز قیامت کے بارے میں گفتگو تھی ، زیر بحث آیت میں وہی و مسئلہ جاری ہے۔پہلی آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے پیغمبراسلامؐ سے
، دنیا کے اختتام کے موقع پر پہاڑوں کے انجام کے بارے میں سوال کیا ہوگا۔ شاید اس بنا پر کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا تھا کہ اس قسم کے موجودات کہ جن کی جڑیں زمین کی گہرائی میں گئی
ہوئی ہیں اورسر آسمان سے باتیں کر رہے ہیں ، اپنی جگہ سے ہل سکتے ہیں اور اگر یہ بات ہو کہ انہیں جڑسے ہی اکھاڑ دیا جائے گا ، تو وہ کونسا طوفان اور آندھی ایسی ہے؟ کہ جو ایسا کرسکے
گی۔
لہذا قرآن کہتا ہے ، تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں (ولیسئلونك عن الجبال)۔
جواب میں ان سے "کہہ دو کہ میرا پروردگار انہیں بکھیر کر سنگریزوں میں تبدیل کر دے گا اور پھر انہیں تباہ و برباد کردےگا": (فقل ينسفهاربي نسفًا)۔ ؎1
پہاڑوں کے انجام کے بارے میں قرآن کی تمام آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ میدان قیامت میں مختلف مراحل طے کریں گے ۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "نسف" کا مادہ لغت میں غذائی دانوں کو چھلنی میں ڈال کر ہلانے اور پھیکنے کے معنی میں ہے تاکہ چھلکے والوں سے علیحدہ ہوجائیں اور یہاں پہاڑوں کے بکھرنے ، خراب ہونے اور اس
کے بعد تباہ و برباد ہو جانے کی طرف اشارہ ہو جانے کی طرف اشارہ ہے۔تاع ، سات وہموار زمین کر رکھتے ہیں ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پہلے تو وہ لرزہ براندام ہوں گے :
يوم ترجف الارض والجبال ( مزمل / 14)۔
پھروہ چلنے لگ جائیں گے:
وتسير الجبال سيرًا (طور / 10) ۔
اور تیسرے مرحلے میں وہ بکھر کر سنگریزوں کی شکل اختیار کر لیں گے:
وكانت الجبال كثيبًا مھيلاً (مزمل /12 )
اور آخری مرحلے میں طوفان اور آندھیاں انہیں اپنی جگہ سے اٹھاکر فضا میں بھکیر دیں گی کروہ دھنکی ہوئی روئی کی طرح نظر آئیں گے ۔
وتكون الجبال کالعھن المنفوش (قارعہ / 5)
بعد والی آیت کہتی ہے کہ پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہونے اور ان کے ذرات کے بکھرجانے کے ساتھ "خدا صفحۃ زمین کو ایک صاف اور ہموار بے آب و گیاہ چٹیل میدان کی طرح کر دے
گا : ( فيذرها قاعًا صفصفًا) ۔ ؎1
"اس طرح سے کہ تم اس میں کسی طرح کا ٹیڑھا پن اور پستی و بلندی نہ دیکھو گے : ( لاتری فيها عوجًا ولا امتًا)۔ ؎2
اس وقت خدا کی طرف سے دعوت کرنے والا ، زندہ ہوکر محشر میں جمع ہونے اور حساب کتاب کی دعوت دے گا اور بے کم و کاست ،سب کے سب اس کی دعوت پر لبیک کہیں گے۔
اور اس کی پیروی کریں گے": ( يومپذ يتبعون الداعي لاعوج له).
کیا یہ دعوت کرنے اور پکارنے والا " اسرافیل" ہوگا یا خدا کے بزرگ فرشتوں میں سے کوئی اور عظیم فرشتہ ہوگیا ؟ قرآن سے واضح نہیں ہوتا ۔ لیکن جو کوئی بھی ہو، اس کا حکم
اس طرح سے نافذ ہوگا کہ کسی شخص میں اس کی خلاف ورزی کرنے کی طاقت نہ ہوگی۔
"الاعوج له“ "کسی قسم کا انحراف اور کجی نہیں رکھتا) ممکن ہے کہ اس دعوت کرنے والے کی دعوت کا وصف ہو یا جن کو دعوت دی جائے گی ان کی توصیف ہو یا یہ دونوں کے
لیے ہو ۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ جس طرح سطح زمین اسی طرح صاف اور ہموار ہوجائیگی کہ اس غیر معمولی سا ٹیڑھا پن بھی باقی نہ رہے گا ، اسی طرح خدا کا فرمان اور اس کی
صاف دعوت دینے والا بھی ویسا ہی صاف و مستقیم ہوگا اور اس کی پیروی بھی ایسی صاف ستھری ہوگی کہ اس میں کسی قسم کجی اور انحراف نظر نہیں آئے گا۔
اس موقع پر پروردگار ان کی عظمت کے سامنے تمام کی تمام آوازیں ضائع ہوجائیں گی اور آہستہ آہستہ سی آوازوں کے سوا تمهیں کوئی
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "قاع" صاف وہموار زمین کو کہتے ہیں ۔ بعض نے اس کو ایک ایسی جگہ کہ جس میں پانی جمع ہو سے تفسیر کیا ہے. رہا " صفصف" تو یہ کبھی تو ایسی زمین کے معنی میں آتا ہے کہ جو
ہرقسم کی گھاس سے خالی ہو اور کبھی سے خالی ہوا اور صاف زمین کے معنی ہیں ۔ ان دونوں صفات کے مجموعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دن پہاڑ اور گھاس وغیرہ سب کچھہ زمین سے ختم
ہوجائیں گے اور صاف اور ساده زمین باقی راہ جاۓ گی
؎2 "عوج" کجی اور گڑھے کے معنی میں ہے اور امت اونچی زمین اور ٹیلے کے معنی ہے اس بنا پر آیت مجموعی طور پر یہ معنی دے گی کہ اس دن کسی قسم کی پستی و بلندی
زمین میں نظر نہیں آئے گی۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
چیز سنائی نہ دے گی" (وخشعت الأصوات للرحمن فلاتسمع اللاهما)۔
آوازوں کی یہ خاموشی یا تو عرصہ محشر میں عظمت الٰہی کے رعب کی وجہ سے ہوگی کہ جس کے سامنے سب کے سب خضوع کرینگے یا حساب و کتاب اورنتیجہ اعمال کے
خوف سے اور یا دونوں وجوہ سے۔
چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس اشتباه میں گرفتار ہوجائیں کہ گناہوں میں غرق ہونے کے باوجود کچھ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کے ذریعہ ناممکن ہوجائے گا تو فورًا فرمایا گیا
ہے ، اس دن کسی کی شفاعت فائدہ نہیں رہے گی ، سوائے ان لوگوں کی شفاعت کے کہ جنہیں خدائے رحمٰن شفاعت کی اجازت دیدے گا اور اس سلسلے میں ان کی گفتگو سے راضی ہوگا (يومئذ لاتنفع
الشفاعة الامن اذن له الرحمن رضی له قولا)۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہاں شفاعت بے حساب نہیں ہوگی بلکہ شفاعت کا پروگرام ، شفاعت کرنے والوں کے بارے میں بھی اور جن کی شفاعت ہوسکے گی ، ان کے
بارے میں بھی ایک ودقیق پروگرام ہے اور جب تک لوگوں میں اس بات کی لیاقت اور استحقاق نہ ہوگا کہ ان کی شفاعت کی جائے ، شفاعت بے معنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگ شفاعت کے بارے میں غلط خیالات رکھتے ہیں اور اسے بلا تشبیہ دنیا کی پارٹی بازیوں کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ شفاعت اسلام کی منطق کے لحاظ
سے تربیت کا ایک اعلی درجہ ہے اور ان لوگوں کے لیے کہ ہر راہ حق میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ایک درس ہے۔ لیکن وہ بھی کبھی اعمال کی کمی اور لغزشوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ممکن
ہے کہ ہے یہ لغزشیں مایوسی اور ناامیدی میں گرفتار کر دیں ۔ اس مقام پرشفاعت ایک قوی محرک کے طور پر ان کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے کہ مایوس نہ ہو اور راہ حق پر اسی طرح چلتے رہو
اور اس راہ میں سعی و کوشش سے دستبردار نہ ہو اور اگرتم سے کوئی لغزش ہوگئی ہے تو ایسے شفاعت کرنے والے موجود ہیں کہ خدا نے رحمٰن کی اجازت ــــــ کہ جس کی عمومی رحمت نے ان
سب کو گھیر رکھا ہے تمھاری شفاعت کریں گے۔
یہ شفاعت سستی اور کاہلی یا مسئولیت و جواب دہی سے فرار ، یا ارتکاب گناہ کے لیے سبز باغ نہیں ہے بلکہ شفاعت راہ حق میں استقامت اور جہاں تک ممکن ہو سکے ، گناہوں کو کم
سے کم کرنے کی دعوت ہے۔
اگرچہ ہم شفاعت کی بحث جلد اول سورہ بقرہ کی آیہ 47 - 48 کے ذیل میں اور جلد دوم سوره بقره آیه 255 کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ کرچکے ہیں ، البتہ کوئی حرج نہیں ہے
کہ یہاں بھی ایک عمده داستان کا اضافہ کریں اور وہ یہ ہے کہ عالم ربانی مرحوم یا سری کہ جو علمائے تہران میں سے تھے، اسی طرح نقل کرتے ہیں کہ ایک شاعری کا حاجب تھا ، مسئلہ شفاعت
میں عامیانہ اشتباهات میں گرفتار تھا ، اس نے اس مضمون کا ایک شعر کہا:
حاجب اگر معاملہ حشر ! با عليؑ است
من ضاکم کہ ہرچہ بخواہی گناه کن
اے حاجب ! اگر حشر کا معاملہ علیؑ کے ہاتھ میں ہے، تو میں ضامن ہوں تو جتنے چاہو
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 همس : (بروزن "لمس" ) جیساکہ راغب نے مفردات میں کہا ہے۔ آہستہ اور پنہاں آواز کے معنی ہے بعض اس کو پاؤں کی آہستہ چاپ (ننگے پاؤں سے چلنے کی آواز) کے معنی میں تفسیر
کرتے ہیں اور بعض لبوں کی حرکت سے ، بغیر اس کے کہ ان کی آواز سنی جائے۔ ان تمام میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
گناہ کرو۔
وہ رات کے وقت عالم خواب میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو دیکھتا ہے کہ وہ جناب انتہائی غصہ اور غضب کی حالت میں ہیں ، اور فرما رہے ہیں ، کہ (اے حاجب) تونے شعر
ٹھیک نہیں کہا ہے۔ وہ عرض کرتا ہے کہ پھر کیا کہوں ؟ تو آپؑ فرماتے ہیں کہ تو اپنے شعر کی اس طرح اسلاح کر:
حاجب اگر معاملہ حشر باعلیؑ است
شرم از رخ علیؑ کن و کمتر کن
اے حاجب! اگر حشر کا معاملہ علی کے ہاتھ میں ہے ، تو علیؑ کے چہرے سے شرم کر اور گناہوں کو چھوڑ دے۔
اور چونکہ لوگوں کا قیامت کے میدان میں حساب اور جزا کے لیے حاضر ہونا ، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا ان کے اعمال وکروا سے آگاہ ہے۔ لہذا بعد والی آیت میں اس طرح
اضافہ کیا گیاہے : خدا ان تمام باتوں کو انہوں نے آگے بھیجی ہیں اور جنہیں وہ دنیا میں اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں ، جانتا ہے اور ان کے تمام افعال را قوال اور نیات سے جو وہ پہلے رکھتے تھے اور
اسی جزا وسزا سے کہ جو آئندہ پیش آنے والی ہے سب سے باخبر ہے لیکن وہ پروردگار کے بارے میں اطاعت نہیں رکھتے (یعلم مابين ايديهم وما خلفھم ولا يحيطون به علمًا)۔ ؎1
اس طرح سے خدا کا علمی احاطہ ان کے اعمال کے بارے میں بھی ہے اور ان کی جزا کے سلسلہ میں بھی اور یہ دونوں حقیقت میں کامل اور عادلانه قضاوت کے دو رکن ہیں کہ
قاضی ان حادثات سے بھی کہ جو ان حادثات سے بھی کہ جو رونما ہوۓ ہیں کامل طور پر باخبر ہو اور ان کے فیصلہ اور جزا سے بھی آگاہ ہو۔
اور اس دن تمام لوگ خدائے حتی و قیوم کے سائے مکمل طور پر خاضع ہوں گے : (وعنت الوجوه للحي القيوم)۔
"عنت" "عنوة" کے مادہ سے خضوع اور ذلت کے معنی میں ہے ۔ لہذا قیدی "عانی" کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ قید کرنے والے کے ہاتھ میں خاضع اور ذلیل ہوتا ہے۔
اور اگر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں پر خضوع کی "وجوه" ( چہروں) کی طرف نسبت دی گئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام نفسیاتی" اظہارات ــــ کہ جن میں سے ایک خضوع
بھی ہے۔ سب سے پہلے اس کے آثار چہروں پر ہی ظاہر ہوتے ہیں۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ "وجوہ" یہاں پر روسا اور امراء اور صاحبان اقتدار کے معنٰی میں ہے کہ اس دن وہ سب سے سب بارگاہ میں ذلیل و خاضع ہوں گے (
لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے).
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بعض مفسرین نے یہ احتمال کو ذکرکیا ہے کہ پہلے جملے میں جمع کی ضمیریں شفاعت کرنے والوں کی طرف لوٹتی ہیں اور بعض نے یہ بھی احتمال ذکرکیا ہے کہ "بہ" کی ضمیر مجرمین
کے اعمال اور ان کے نتائج کی طرف لوٹتی ہے لیکن جو کچھ ہم نے اوپر کہا ہے وہ زیادہ صحیح نظر آتا ہے (غورکیجئے گا)۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس مقام پر خدا کی تمام صفات میں سے "حی و قیوم" کا انتخاب اس وجہ سے ہے کیونکہ یہ دونوں صفات قیامت کے مسئلہ کے ساتھ کہ جو سب کی زندگی اور قیام کا دن ہے ، مناسبت
رکھتی ہے ۔
آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے ، خدائی ثواب سے مایوس اورناامید وه لوگ ہیں کہ جنہوں نے ظلم وستم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے (وقدخاب حمل ظلمًا)
گویا ظلم و ستم ایک ایسے عظیم بوجھ کی طرح ہے کہ جو انسان کے کندھوں پر وزن ڈالتا ہے اور اس کو خدا کی دائمی نعمتوں کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے ۔ ظالم و ستمگر چاہے
انہوں نے خود اپنے اوپرظلم کیا ہو ، ئیا دوسرے پر امید ہوکر ان کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے اس لیے کہ اس دن اپنی آنکھوں سی دیکھیں گے کہ ہلکے بوجھ والے جنت کی
طرف چلے جارہے ہیں لیکن وہ ظلم کے سنگین بوجھ میں دبے ہوئے جہنم کے قریب گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔
چونکہ قرآن کی روش عام طور مسائل میں مطابقت کو بیان کرنا ہے لہذا اس دن ظالموں اور مجرموں کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد مومنین کی حالت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے ،
باقی ہے وہ لوگ کہ جو اعمال صالح بجا لائیں اور وہ مومن بھی ہوں ، تووہ نہ تو کسی ظلم و ستم سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اپنے حق کا نقصان ہوجانے سے (ومن يعمل من الصالحات وهو مؤمن فلايخاف
ظلمًا ولاهضمًا)۔ ؎1
"من الصالحات" کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر وہ تمام نیک اعمال کو انجام نہیں دے سکتے ، تو کم از ان میں سے کچھ تو بجالائیں کیونکہ ایمان عمل صالح کے بغیر ایک
ایسا درخت ہے کہ جس پر پھل لگتے ہوں ۔ جیسا کہ عمل صالح ایمان کے بغیرایسا درخت ہے ۔ اور ش مدد ل سکتی ہوں ۔ کہ جس کی جڑیں نہ ہوں ، جو ممکن ہے کچھ دن کھڑا رہے ، لیکن آخرکار
خشک ہوجائے گا۔ اسی بنا پر عمل صالح کے ذکر کے بعد زیرنظر آیت : میں " وهو مؤمن" شرط کا ذکر ہے۔
اصولی طور پر عمل صالح ایمان کے بغیر وجود میں آہی نہیں سکتا اور اگر کبھی بے ایمان لوگ کوئی نیک کام انجام دیں تو بلاشک شبہ و محدود و کمزور اور استثنا ہوں گے۔ دوسرے
لفظوں میں اس غرض سے کہ عمل صالح مسلسل، پائیدار اور گہرا انجام پائے ، اسے پاک اور صحیح عقیدے سے سیراب ہونا چاہیے۔