ان کے کندھوں پر بدترین بوجھ
كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا ۹۹مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا ۱۰۰خَالِدِينَ فِيهِ ۖ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا ۱۰۱يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا ۱۰۲يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا ۱۰۳نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا ۱۰۴
اور ہم اسی طرح گزشتہ دور کے واقعات آپ سے بیان کرتے ہیں اور ہم نے اپنی بارگاہ سے آپ کو قرآن بھی عطا کردیا ہے. جو اس سے اعراض کرے گا وہ قیامت کے دن اس انکار کا بوجھ اٹھائے گا. اور پھر اسی حال میں رہے گا اور قیامت کے دن یہ بہت بڑا بوجھ ہوگا. جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم تمام مجرمین کو بدلے ہوئے رنگ میں اکٹھا کریں گے. یہ سب آپس میں یہ بات کررہے ہوں گے کہ ہم دنیا میں صرف دس ہی دن تو رہے ہیں. ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں جب ان کا سب سے ہوشیار یہ کہہ رہا تھا کہ تم لوگ صرف ایک دن رہے ہو.
تفسیر
ان کے کندھوں پر بدترین بوجھ :
گزشتہ آیات اگرچہ موسٰیؑ ، بنی اسرائیل، سامری اور فرعونیوں کی تاریخ کے بارے میں تھیں۔ اس کے باوجود ان آیات کے متن کی مناسبت سے طرح طرح کی بحثیں ہوچکی ہیں۔ ان
مباحث کے اختتام پر قرآن ایک کلی نیتیجہ بھی پیش کرتا۔ اور کہتا ہے کہ : ہم اسی طرح سے گزری ہوئی خبروں کو یکے بعد دیگے تیرے لیے بیان کرتے ہیں (كذالك نقص عليك من انياء ما قد سبق)۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے : ہم نے اپنی طرف سے تجھے قرآن دیا (وقد اتيناك من لدنا ذكرًا)۔
وہ قرآن، کہ جو دروس عبرت، دلائل عقلی ، گزشتہ قوموں کی سبق آموز خبروں اور آئندہ آنے والے لوگوں کو بیدار کرنے والے مسائل سے معمور ہے۔
اصولی طور پر قرآن مجید کا اہم حصہ گزشتہ لوگوں کی سرگزشت کا بیان ہے۔
قرآن ایک انسان ساز کتاب ہے ــــــــ اس میں گزرے ہوئے لوگوں کی تمام تاریخ بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کی وجہ ان کی تاریخ کے مختلف پہلوں ، کامیابی شکست کے عوامل اور
سعادت و بدبختی کے اسباب سے اور ان کی تاریخ کے صفحات میں چھپے ہوئے فراواں تجربات سے استفادہ کرنا ہے۔
کلی طور علوم میں سے سب سے زیادہ قابل اطمینان تجرباتی علوم ہیں کہ جو تجربہ گاہوں میں تجربے سے گزارے جاتے ہیں اوران کے عینی نتائج کا مشاہدہ کیا جاتاہے۔
تاریخ ، انسانوں کی زندگی کی عظیم تجربہ گاہ ہے اور اس تجرہ گاہ میں ، اقوام کی سربلندی و شکست ، کامیابی و ناکامی خوش بختی و بدبختی
سب کی سب تجربے کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ان کے عینی نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں ، اور ہم زندگی کے مسائل کے سلسلہ میں اپنے علوم و دانش کے زیادہ قابل اطمینان حصہ کہ ان
سے سیکھ سکتے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں انسان کی زندگی کا حاصل۔ ایک لحاظ سے ــــــ تجربہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ اور تاریخ میں کسی قسم کی تحریف نہ کی گئی ہو تو انسانوں کے
ہزاروں سال کی زندگی کا نچوڑ ہوتی ہے اور یہ سب کچھ مطالعہ کرنے والوں کو ایک ہی جگہ سے مل جاتا ہے۔ اسی بنا پر امیرالمومنین علی علیہ اسلام اپنے فرزند امام حسن مجتبٰی علیه السلام کو
اپنے حکیمانہ پندو نصائے میں خصوصًا اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں :
ای بنی انی وان لم اكن عمرت عمر من كان قبلی ، فقد نظرت
في أعمالهم و فكرت في اخبارهم ، وسرت في اثارهم حتٰی
عدت كا حد هم بل کانی بما انتهی الا من امورهم قد
عمرت مع اولهم الى أخرهم ، فعرفت صفوذالك من کدره
ونفعه من ضرره فاستخلصت لك من كل أمرنخيله :
اے بیٹا! یہ ٹھیک ہے کہ میں نے ان تمام لوگوں جتنی ، کہ جو مجھ سے پہلے گزرے ہیں،
زندگی نہیں گزاری لیکن میں نے ان کے کردار نظر ڈالی اور ان کی خبروں میں غور و فکرکیا اور انکے
آثار میں سیروسیاحت کی۔ یہاں تک کہ میں ان میں سے ایک کی طرح ہوگیا ہوں، بلکہ چونکہ ان کی
تاریخ مجھ تک پہنچتی ہے تو گویا میں ان سب کے ساتھ اول دنیا سے لے کرآج کے دن تک
رہا ہوں۔ میں نے ان کی زندگی کے صاف و شفاف حصہ کو گدلے اور تاریک حصہ سے الگ
کرکے پہچان لیا ہے ۔ ان کے نفع و نقصان کو جان لیا ہے اور ان تمام میں سے تیرے لیے اہم
اور منتخب حصوں کا خلاصہ بیان کیاہے ۔ ؎1
اس بنا پر تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ گزشتہ زمانہ کو عیاں کرتا ہے اور ایک ایسا حلقہ نے کہ جو آج کل کے ساتھ متصلی کردیتا ہے۔ تاریخ انسان کی عمر کو اس کے اندازے سے بڑا
بنادیتی ہے۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 نہج البلاغبہ کا خط 31 (خطوط کا حصہ) ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تاریخ ایک ایسا معلم ہے کہ جو امتوں کی عزت اور ذلت کے بھدیوں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ تاریخ ستمگروں کو پہلے زمانے کے ظالموں کے برے انجام سے آگاہ کرتی ہے ۔ وہ ظالم
جو ان سے زیادہ طاقتور تھے۔ تاریخ مردان حق کو بشارت دیتی ہے اور استقامت اور پامردی کی دعوت دیتی ہے اور انہیں اپنے سفر کے لیے گرماتی ہے۔
تاریخ ایک ایسا چراغ ہے کہ انسانوں کی زندگی کے راستوں کو روشن کرتا ہے اور موجودہ زمانے سے لوگوں کے لیے راہیں کھولتا اور ہموار کرتا ہے۔ تاریخ آج کے انسانوں کی
تربیت کرتی ہے اور آج کے انسان کل کی تاریخ بناتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ خدا کی ہدایت کے اسباب میں سے ایک تاریخ ہے۔
لیکن اس بارے میں کوئی اشتباہ اور غلط فہمی نہ ہونے پائے کہ ایک سچی تاریخ کا بیان جس قدر تعمیری اور تربیتی ہے اسی قدر جعلی اور تحریف شده تاریخیں گمراہی کا باعث ہوتی
ہیں۔ اسی بنا پر ان لوگوں کے دل بیمار میں انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ تاریخ میں تحریف کرکے انسانوں کو دھوکا دیں اور خدا کے راستے سے روکیں۔ ہمیشہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ
تاریخ میں بہت زیادہ تحریف ہوتی ہے ۔
اس نکتے کا ذکرکرنا بھی ضروری ہے کہ لفظ "ذكر" یہاں اور قرآن کی بہت سی دوسری آیات میں خود قرآن کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس کی آیات انسانوں کی بیداری اور ہوشمندی
کے لیے تذکراور یاد آوری کا موجب ہوتی ہیں۔
اسی بنا پر بعد والی آیت ایسے لوگوں کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے کہ جو قرآن کے حقائق اور تاریخ کے عبرت انگیر سبق کو بھول جاتے ہیں "جو قرآن سے منہ پھیرے لے گا وہ
قیامت میں گناہ اور جوابدہی کا سنگین بوجھ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہوگا : (من اعرض عنه فانه يحمل يوم القيامة و زرًا)-
ہاں ! پروردگار سے روگردانی ، انسان کو اس طرح سے بےراہ روی کی طرف کھینچ کرلے جاتی ہے ہر قسم قسم کے گناہوں اور فکری و عقیدگی انحراف کا سنگین بوجھ اس کے
کندھے پر رکھ دیتی ہے ( اصولی طور پر نظر "وزر" خود سنگین بوجھ کے معنی میں ہے اور اسے نکرہ کی شکل میں پیش کرنا ، اس بارے میں مزید تاکید ہے)۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے ، وہ اپنے ان عمال کے بوجھ تلے ہمیشہ ہمیشہ د بے رہیں گے :(خالدين فيه)
" اور گناہ کا یہ سنگین بوجھ ، ان کے لیے قیامت کے دن بہت ہی برا بوجھ ہے" (وساء لهم يوم القيامة حملاً)۔
یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے "فيه" کی ضمیر اس آیت میں "ون" کی طرف لوٹتی ہے یعنی وہ اسی" وزبرو" اور اپنے سنگین بوجھ میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( ہمارے پاس اس بارے
میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم یہاں پر کسی چیز کو مقدر مانیں اور یہ کہیں کہ وہ عذاب میں یا جہنم میں ہمیشہ رہیں گے) نیز یہ آیت خود تجسم اعمال کے مسئلہ کی طرف ایک اشارہ ہے اور یہ کہ
انسان اپنی اعمال اور کاموں کی وجہ سے ہے جو اس نے اس جہان میں انجام دیئے۔ قیامت میں اچھی جزا یا بری سزا دیکھے گا۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 ہم نے تاریخ اور اس کی اہمیت کے بارے میں سورہ یوسف کی ابتدا اور آخر میں "جلد 9 ص 279 اردو ترجمہ اور جلد 10 ص 95 اردو ترجمہ اور اسی طرح سوره ھود جلد 9 ص
262 اردو ترجمہ میں بحث کی ہے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس کے بعد قیامت کے دن کی توصیف اور اس کے آغاز کے بیان کو شروع کرتے ہوئے اس طرح کہتا ہے ، وہی دن کے جس میں صور پھونکا جائے گا اور ہم گنہگاروں کو نیلے اور
سیاہ بالوں کے ساتھ، اس دن جمع کریں گے ( يوم ينفع والصور و تحشر الجرمين يومئذ زرقًا)۔
جیسا کہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے۔ آیات قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان کا اختتام اور دوسرے جہان کا آغاز، دو انقلابی اور ناگہانی جنبشوں کے ساتھ صورت پذیر ہوگا کہ
جن میں سے ہر ایک کو" نفخ صور" (صور پھونکنے) سے تعبیر کیاگیا ہے اس کی تشریح ہم انشاء الله سوره زمر کی آیہ 68 کے ذیل میں کریں گے۔
لفظ "زرق" "ازرق" کی جمع ہے جو عام طور پر نیلی آنکھ والے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن کبھی اس شخص پر بھی کہ جس کا بدن درد اور تکلیف کی شدت کی وجہ سے سیاہ
اور نیلا ہوچکا ہو ؟ بولا جاتا ہے کیونکہ بدن درد اور تکلیف کے وقت نحیف اور کمزور ہوکر اپنی طراوت اور رطوبت کو کھو بیٹھتا ہے اور نیلا نیلا سا نظرآتا ہے۔
بعض نے اس لفظ کی "نابینا" کے معنی سے بھی تفسیر کی ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نیلی آنکھ والے افراد کی بینائی بہت کمزور ہوتی ہے اور عام طور پر ان کے بدن کے بال
بھی کمزور ہوتے ہیں لیکن جو کچھ ہم نے اوپر کی تفسیر میں بیان کیا ہے ، شاید وہ سب سے بہتر ہو۔
اس حالت میں مجرمین آپس میں عالم برزخ میں اپنے توقف کی مقدار کے بارے میں آہستہ آہستہ گفتگو کریں گے۔ بعض کہیں گے کہ تم تو صرف دس راتیں (یا دس رات دن) عالم برزخ
میں رہے ہو ۔ (یتخافتون بينهم ان لبشم الاعشرًا)۔ ؎1
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہ جملہ دنیا میں ان کے توقف کی طرف اشارہ ہے کہ جو آخرت اور اس کے وحشت ناک حوادث کے مقابلہ میں چند مختصر دن ہی
معلوم ہوگا۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیاہے : ہم اس سے کہ جو وہ کہتے ہیں مکمل طور پر آگاہ ہیں : (نحن اعلم بما یقولون)۔
چاہے وہ آہستہ سے کہیں یا بلند آواز سے۔
"اور اس موقع پر وہ شخص کہ جو سب سے بہتر راه و روش اور عقل و شعور رکھتا ہے ، یہ کہے گا کہ تم تو صرف ایک ہی دن ٹھہرے ہو"
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 عربى ادب کے لحاظ سے چونکہ "عشرا" یہاں مذکر کی شکل میں آیاہے لہذا یقینًا اس کا مضاف الیہ "لیال" ہونا چاہیے جو کہ مونث ہے. اور اگر اس کا مضاف اليہ "ايام" ہوتاتو "عشرۃ" كہا جاتا
- لیکن بعض عرب ادباء کہتے ہیں کہ جس وقت عدو تنہا شکل میں ظاہر ہو اور کی تمیز محذوف ہو تو پھرسابقہ قاعده جاری نہیں ہوتا۔ لہزا "عشر" یہاں دس دنوں کی طرف اشارہ ہے ۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(اذ يقول امثلهم طربيۃ ان لبثم الايومًا)۔
مسلمہ طور پر تو دس دن کی طولانی مدت ہے اور نہ ہی ایک دن کی لیکن ان میں یہ فرق ہے کہ ایک دن تو اکائیوں میں سے سب سے کمترعدد کی طرف اشارہ ہے اور دس دن
دھائیوں میں سے کم عدو کی طرف لہذا پہلا زیادہ کم مدت کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اسی لیے قرآن نے اس کے کہنے والے کے بارے میں "امثالهم طريقة" (جس کی روش اور طریقہ بہتر ہے) فرمایا
ہے ۔ کیونکہ عمردنیا کی کوتاہی یا برزخ کا چھوٹا ہونا ، آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں اور اسی طرح ان کی کیفیت کا ناچیز ہونا اس کی کیفیت کے مقابلے میں ، کم سے کم عدو کے ساتھ ہی مناسبت
رکھتا ہے۔ (غورکیجئے گا)۔