Tafseer e Namoona

Topic

											

									  1- مشکلات کے مقابل ڈٹ جانا چاہیئے

										
																									
								

Ayat No : 92-98

: طه

قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ۹۲أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي ۹۳قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ۹۴قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ ۹۵قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ۹۶قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ ۖ وَانْظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا ۹۷إِنَّمَا إِلَٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۹۸

Translation

موسٰی نے ہارون سے خطاب کرکے کہا کہ جب تم نے دیکھ لیا تھا کہ یہ قوم گمراہ ہوگئی ہے تو تمہیں کون سی بات آڑے آگئی تھی. کہ تم نے میرا اتباع نہیں کیا, کیا تم نے میرے امر کی مخالفت کی ہے. ہارون نے کہا کہ بھیّا آپ میری داڑھی اور میرا سر نہ پکڑیں مجھے تو یہ خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں اختلاف پیدا کردیا ہے اور میری بات کا انتظار نہیں کیا ہے. پھر موسٰی نے سامری سے کہا کہ تیرا کیا حال ہے. اس نے کہا کہ میں نے وہ دیکھا ہے جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا ہے تو میں نے نمائندہ پروردگار کے نشانِ قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اور اس کو گوسالہ کے اندر ڈال دیا اور مجھے میرے نفس نے اسی طرح سمجھایا تھا. موسٰی نے کہا کہ اچھا جا دور ہوجا اب زندگانی دنیا میں تیری سزا یہ ہے کہ ہر ایک سے یہی کہتا پھرے گا کہ مجھے چھونا نہیں اور آخرت میں ایک خاص وعدہ ہے جس کی مخالفت نہیں ہوسکتی اور اب دیکھ اپنے خدا کو جس کے گرد تو نے اعتکاف کر رکھا ہے کہ میں اسے جلاکر خاکستر کردوں گا اور اس کی راکھ دریا میں اڑادوں گا. یقینا تم سب کا خدا صرف اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہی ہر شے کا وسیع علم رکھنے والا ہے.

Tafseer

									
  چند اہم نکات 
 1- مشکلات کے مقابل ڈٹ جانا چاہیئے : 
 بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے مقابلے میں حضرت موسٰیؑ کی روش سخت اور پیچیده انحرافات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر زمان و مکاں کے لیے ایک قابل تقلید روش ہے۔ 
 اگر حضرت موسٰیؑ یہ چاہتے کہ صرف پند و نصیحت اور کچھ وعظ و استدلال کے لیے لاکھوں گؤسالہ پرستوں کے سامنے کھڑے ہوں تو مسلمہ طور پر اس کام کو آگے نہیں بڑھا 

سکتے تھے۔ انہیں یہی چاہیے تا کہ وہ اس موقع پر تین امور کے لیے قاطعانہ اور جراتمندانہ طور پرکھڑے ہوجائیں۔اپنے بھائی کے سامنے سامری کے سامنے اور گؤسالہ پرستوں کے سامنے پہلے 

انہوں نے اپنے بھائی سے کام شروع کیا۔ ان کی ریش مبارک پکڑلی اسے اپنی طرف کھینچا اور چیخنے اور چلنے لگے اور حقیقت میں ان کے لیے یہ ایک عدالت قائم کی، (اگرچہ آخر کار بارون کی 

بیگناہی لوگوں پر ثابت ہوگئی) تاکہ دوسرے اپنا حساب خودسوچ لیں۔ . 
 اس کے بعد اس سازش کے اصلی عامل یعنی سامری کی طرف گئے اور اسے ایسی سزا دی کہ جو قتل کرنے سے بھی بدترتھی ۔ اسے معاشرے باہرنکال دیا، اس کو گوشہ نشین کر دیا 

اور اسے ایک نجس اور آلودہ وجود قراردیا کہ جس سے سب کا دوری اختیارکرنا ضروری ہوگیا اور اس کے لیے
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 اس دو ٹوک ٹکر کی ایک نظیر انحرافی افکار کی بیخ کنی کے لیے مسجد ضرار کے بارے میں قرآن میں اشارے کے طور پر اور تاریخ و حدیث میں تفصیلی طور پر بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم نے حکم 

دیا کہ مسجد ضرار کر پہلے جلادیں اور جو کچھ باقی رہ جائے اس کو ویران کردیں اور اس کی ان کو مدینہ کے لوگوں کے لیے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ قراردیں (مزید وضاحت کے لیے 

تفسیرنمونہ کی جلد 8 سوره توبه کی آیات 107 تا 110 سکے ذیل میں ملاحظہ کریں )۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 پروردگارکی طرف سے دردناک عذاب کی تہدید کی ۔ 
 اس کے بعد بنی اسرائیل کے گؤسالہ پرستوں کی طرف آئے اور انہیں سمجھایا کہ تمھارا یہ گناه اس قدر بڑا ہے کہ جس سے توبہ کرنے اس کے سوا اور کئی راستہ نہیں ہے کہ 

اپنے درمیان تلوار رکھ دو اور ایک گروہ ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہو اور یہ گنده خون معاشرے کے جسم سے نکال دیا جائے ان اس طرح گنہگاروں کی ایک جماعت کے لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے 

مارے جائیں تاکہ ہر انحرافی فکر ہمیشہ کے لیے ان کے دماغ سے نکل جائے۔ اس واقعہ کی تفصیل بم جلد اول سورہ بقرہ کی آیه 51 تا 54 کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔ 
 تو اس طرح سب سے پہلے جمعیت کے رہبر کی جواب طلبی ہونی چاہیے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنے کام میں کوتاہی کی ہے یا نہیں اور اس کی بے گناہی ثابت ہونے کے بعد 

عامل فسادکا پیچھا کیا جائے اور اس کے بعدا کے طرفداری اور بوا خواہوں کا پیچھا کیا جانا چاہیئے۔