Tafseer e Namoona

Topic

											

									  صرف ہم حق پر ہیں

										
																									
								

Ayat No : 135-137

: البقرة

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۱۳۵قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ۱۳۶فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۱۳۷

Translation

اور یہ یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ تم لوگ بھی یہودی اورعیسائی ہوجاؤ تاکہ ہدایت پا جاؤ توآپ کہہ دیں کہ صحیح راستہ باطل سے کترا کر چلنے والے ابراہیم علیھ السّلام کا راستہ ہے کہ وہ مشرکین میں نہیں تھے. اور مسلمانو! تم ان سے کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے ہماری طرف بھیجا ہے اور جو ابراہیم علیھ السّلامً اسماعیل علیھ السّلام ً اسحاق علیھ السّلامً یعقوب علیھ السّلامً اولاد یعقوب علیھ السّلام کی طرف نازل کیا ہے اور جو موسیٰ علیھ السّلام ً عیسیٰ علیھ السّلام اور انبیائ علیھ السّلام کو پروردگار کی طرف سے دیا گیا ہے ان سب پر ایمان لے آئے ہیں. ہم پیغمبروں علیھ السّلام میں تفریق نہیں کرتے اور ہم خدا کے سچّے مسلمان ہیں. اب اگر یہ لوگ بھی ایسا ہی ایمان لے آئیں گے تو ہدایت یافتہ ہوجائیں گے اور اگر اعراض کریںگے تو یہ صرف عناد ہوگا اور عنقریب اللہ تمہیں ان سب کے شر سے بچا لے گا کہ وہ سننے والا بھی ہے اورجاننے والا بھی ہے.

Tafseer

									خود پرستی اور خود محوری کا اکثر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان حق کو فقط اپنی ذات میں منحصر سمجھتا ہے اور باقی سب کو باطل پرست قرار دیتاہے اور کوشش کرتاہے کہ دوسروں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لے جیسا کہ محل بحث پہلی آیت میں قرآن کہتاہے: اہل کتاب کہتے ہیں یہودی ہوجاؤ یا عیسائی بن جاؤ تو ہدایت یافتہ ہوجاؤگے ( و قالوا کونوا ہودا او نصاری تھتدوا)۔
 کہئیے کہ تحریف شدہ مذاہب اس قابل نہیں کہ وہ ہدایت بشر کا سبب بنیں بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص دین کے پیروکار بنوتا کہ ہدایت حاصل کرو۔ وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے (قل بل ملة ابراہیم حنیفا و ما کان من المشرکین)۔
 صحیح دیندار افراد وہ ہیں جو خالص توحید کے پیروکار ہیں وہ توحید جو کسی قسم کے شرک سے آلودہ نہ ہو اور پاک و صاف دین کو کجرو دین سے ممتاز کرنے والی اہم ترین بنیاد توحید خالص ہی ہے۔
 اسلام ہمیں تعلیم دیتاہے کہ خدا کے پیغمبروں میں کوئی تفریق نہ کریں اور سب کی تعلیمات کا احترام کریں کیونکہ دین حق کے اصول سب کے ہاں ایک ہی جیسے ہیں۔ موسی و عیسی بھی ابراہیم کے آئین حق کے پیروکار تھے جو شرک سے پاک تھا، اگرچہ ان کے دین میں نادان پیروکاروں نے تحریف کردی اور اسے شرک آلود کردیا (یہ گفتگو اس بات کے خلاف نہیں کہ آج ہمیں اپنی شرعی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے آخری آسمانی دین کی پیروی کرنا چاہئیے یعنی صرف اسلام کی نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور کی جیسا کہ اسی سورہ کی آیہ ۶۲ کے ذیل میں بیان کیا جا چکاہے)۔ اسی لئے بعد کی آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے کہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے ہیں جو اس کی طرف سے ہم پر نازل ہواہے اور اس پر جو ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق، یعقوب اور بنی اسرائیل کے اسباط پیغمبروں پر نازل ہواہے اور اسی طرح جو موسی و عیسی اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے خدا کی طرف سے دیاگیاہے (قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا اٴُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَمَا اٴُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اٴُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِنْ رَبِّہِمْ)۔
 خلاصہ یہ کہ ہم ان کے در میان کوئی فرق روا نہیں رکھتے اور فرمان حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے ہیں (لاَنُفَرِّقُ بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ )۔
 خود محوری ، نسلی تعصبات اور ایسی دیگر چیزیں ہمارے لئے اس بات کا موجب نہیںبنتی کہ ہم کچھ کو مان لیں اور کچھ کا انکار کردیں۔ وہ سب خدائی معلم ہیں جنہوں نے مختلف تربیتی طریقوں سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے قیام کیا۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا توحید خالص اور حق و عدالت کے سائے میں نوع بشر کی ہدایت، اگر چہ ان میں سے ہر ایک اپنے خاص زمانے میں بعض مخصوص ذمہ داریوں اور خصوصیات کا حامل تھا۔
 اس کے بعد قرآن کہتاہے: اگر یہ لوگ ان امور پر ایمان لے آئیں جن پر تم ایمان لائے ہو تو ہدایت پالیں گے (فإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُمْ بِہِ فَقَدْ اہْتَدَوا )۔ اگر روگردانی کریں گے تو حق سے جدا ہیں(وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا ہُمْ فِی شِقَاق)۔
 اگر وہ نسلی و خاندانی تعصبات اور ایسی دیگر چیزوں کو مذہب میں داخل کریں اور خدا کے تمام پیغمبروں پر بلا ااستثناء ایمان لے آئیں تو ہدایت یافتہ ہوجائیں اور اگر یہ صورت نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا انہوں نے حق کو چھوڑ دیاہے اور باطل کے پیچھے رواں ہیں۔
 لفظ (شقاق) در اصل شکاف، نزاع اور جنگ کے معنی میں ہے اور اس مقام پر اس سے مراد کفر، گمراہی، حق سے دوری اور باطل کی طرف توجہ لیاگیاہے اور ان سب معانی کا نتیجہ ایک ہی ہے۔
 بعض مفسرین نے نقل کیاہے کہ گذشتہ آیت کے نازل ہونے اور حضرت عیسی کا باقی انبیاء کی صف میں ذکر آنے کے بعد عیسائیوں کی ایک جماعت کہنے لگی کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ حضرت عیسی دیگر انبیاء کی طرح تھے وہ تو خدا کے بیٹے تھے لہذا زیر نظر آیات میں سے تیسری آیت نازل ہوئی اور انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ گمراہی اور کفر کا شکار ہیں۔ بہرحال آیت کے آخر میں مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے کہ وہ دشمن کی سازشوں سے ہراساں نہ ہوں فرمایا: خدا ان کے شرک ان سے دور کر ےگا کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ان کی باتیں سنتا ہے اور ان کی سازشوں سے آگاہ ہے ( فَسَیَکْفِیکَہُمْ اللهُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم)۔