نجات کی واحد راہ
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۸۰كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ ۸۱وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ ۸۲
بنی اسرائیل ! ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دلائی ہے اور طور کی داہنی طرف سے توریت دینے کا وعدہ کیا ہے اور من و سلویٰ بھی نازل کیا ہے. تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھاؤ اور اس میں سرکشی اور زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب نازل ہوجائے کہ جس پر میرا غضب نازل ہوگیا وہ یقینا برباد ہوگیا. اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راسِ ہدایت پر ثابت قدم رہے.
تفسیر
نجات کی واحد راہ
گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کی آل فرعون کے خیال سے نجات کا بیان ایک عظیم معجزہ کی صورت میں کیاگیا تھا۔ اب زیر نظر تینوں آیات میں بنی اسرائیل سے کئی اعتبار سے گفتگو
ہو رہی ہے اور انہیں وہ عظیم نعمتیں یاد دلائی جارہی ہیں جو خدا نے انہیں بخشی تھیں اور انہیں راہ نجات کی نشاندہی کی جارہی ہے.
پہلے فرمایا گیا ہے ، اے بنی اسرائیل ! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن کے چنگل سے رہائی بخشی (یا بنی اسرائیل قدانجيناكومن عدوكم)۔
یہ بات واضح ہے کہ ہرمثبت فعالیت کی بنیاد دوسروں کے تسلط اور غلبہ سے نجات پانا اور استقلال و آزادی کا حصول ہے۔ اسی بنا پر سب سے پہلے اسی چیز کی طرف اشارہ ہوا
ہے۔
اس کے بعد ایک اہم معنوی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے ، ہم نے تمہیں ایک مقدس وعده گاه کی طرف دعوت دی ، کوہ طور کے دائیں طرف جو وحی الٰہی کا مرکز
ہے : (وواعدناكوجانب الطور الايمن)۔
یہ حضرت موسی کے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے ساتھ طور کی وعدہ گاہ کی طرف جانے کے واقعے کی طرف اشارہ ہے ۔ اسی وعدہ گاہ میں خدا نے موسٰیؑ پر تورات کی الواح
نازل کیں اور ان سے باتیں کیں اور پروردگار کے جلوہ خاص کا سب نے مشاہده کیا۔ ؎1
اس کے بعد ایک اہم مادی نعمت ــــــ کہ جو بنی اسرائیل کے لیے خدا کا ایک لطف خاص تھا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ہم نے تم پر "من" و "سلویٰ" نازل کیا: (و نزلنا
عليكم المن والسلوی)۔
جب تم بیابان میں سرگردان تھے۔ پاس کوئی مناسب غذا نہیں تھی، تولطف خاص تمہاری مدد کے لیے آگے بڑھا۔ لذیزاور خوش مزہ کھانا اتنی مقدار میں کہ جتنی تمہیں ضرورت تھی،
تمہیں مہیا کیا ۔ تم اس سے استفادہ کرتے رہے۔
اس بارے میں کہ" من وسلوی" سے کیا مراد ہے ؟ مفسرین نے بہت بحث کی ہے، جسے ہم نے اسی تفسیر میں پہلی جلد میں سورہ بقرہ کی آیہ 57 کے ذیل میں بیان کیا ہے اور
مفسرین کے اقوال نقل کرنے کے بعد ہم نے لکھا ہے ، بعید نہیں ہے کہ "من" ایک قسم کا طبیعی شہد ہو کہ اس بیابان کے قریب کے پہاڑوں میں پایا جاتا تھا، اسے ایک مخصوص قسم کا قوت بخش نباتی
شیرہ ہو ،جو اس بیابان کے اطراف میں اھے ہوئے درختوں سے نکلا تھا اور سلوٰی ایک قسم کا حلال گوشت کبوتر کے مشابہ ہی پرندہ تھا مزید وضاحت
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس واقع کی تفصیل چھٹی جلد سوره اعراف کی آیت 155 ، 156 کے ذیل میں مطالعہ فرمائیں۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کے لیے جلد اول میں مذکورہ آیت کے ذیل میں رجوع کریں)۔
بعد والی آیت میں ان تینوں بیش بہا نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد قران انہیں اس طرح سے خطاب کرتا ہے، ہم نے جو پاکیزہ روزی تمهیں دی ہے اس میں سے کھاؤ ، لیکن اس میں
سرکشی نہ کرنا (كلوا من طيبات ما رزقناكم ولا تطغوافیہ)۔
نعمتوں میں طغیانی یہ ہے کہ انسان ان سے خدا کی اطاعت اور اپنی سعادت کے لیے استفادہ کرنے کی بجائے، ان کو گناہ ، ناشکری ، کفران نعمت ، سرکشی اور ادھر ادھر کے افکار
کا اسیر بنے کا ذریعہ بنالے جیسا کہ بنی اسرائیل نے کیا۔ ان کو یہ رمام خدائی نعمتیں حاصل تھیں اور پھر بھی کفر و طغیان و گناه کی راہ پر چل پڑے۔
اس کے بعد انہیں خبردار کیا گیا ہے اگرتم طغیان و سرکشی کرو گےتو میرا غضب تمہیں دامن گیر ہوجائے گا (فيحل عليکم غضبي)۔
اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے: ( ومن يحلل عليه غضبي فقدهوی)۔
"هوی" دراصل بلندی سے گرنے کے معنی میں ہے کہ جس کا نتیجہ عام طور پر نابود ہونا ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پرمرتبہ و مقام سے گرنا ، اورقرب پروردگار سے دوری اور اس کی
جناب سے راندہ درگاہ ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے ۔
چونکہ یہ بات ہمیشہ ضروری ہے کہ تنبیہ و تهدید کے ساتھ ساتھ تشویو و بشارت بھی ہو تاکہ امید وبیم کی قوت کو ـــــ کہ جو ارتقاء تکامل کے لیے بنیادی عامل ہے کیساں طور پر
ابھارے اور توبہ کرنے والوں کے لیے واپسی کے دروازوں کو کھلا رکھے ۔ لہزا بعد والی آیت کہتی ہے : میں ان لوگوں کو بخش دوں گا کہ جوتوبہ کرلیں، ایمان لے آئیں، نیک عمل انجام دیں ۔ اور اس
کے بعد ہدایت پر بھی قائم رہیں: (توَاِنِّـىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُـمَّ اهْتَدٰى).. .
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ "غفار" مبالغہ کا صیغہ ہے، یہ حقیقت عیاں ہوت ہے کہ خدا اس قسم کے لوگوں کونہ صرف ایک دفعہ بلکہ بار بار اپنی بخشش اور مغفرت
سے نوازتا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ توبہ کی پہلی شرط گناہ کا ترک کرنا ہے اور جب انسان کی روح سے گناہوں کی آلودگی برطرف ہو جائے تو
اس کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ خدا پر ایمان اور توحید کا نور اس میں جلوہ گر ہو۔
اور تیسرے مرحلے میں ایمان و توحید کے شگوفے ـــــــ جو کہ اعمال صالح اور پسندیدہ کام میں وجود انسان کی شاخوں پر پھوٹنے چاہئیں ۔
لیکن قرآن کی دوسری تمام آیات کے برخلاف کہ جو صرف توبہ ، ایمان اور عمل صالح کی بات کرتی ہیں یہاں پر چوتھی شرط کا "ثم اھتدی“ کے عنوان کے تحت اضافہ ہوگیا ہے۔
اس کے معنی کے بارے میں مفسرین نے بہت بحث کی ہے۔ اس ضمن میں مفسرین کی مختلف تعبیروں میں دو زیادہ جاذب نظر معلوم ہوتی ہیں۔
پہلی تفسیر: تو یہ ہے کہ یہ راہ ایمان و تقوی اور عمل صالح کو دوام بخشنے اور جاری رکھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی تور یہ گزشتہ گناہوں کوتو دھو ڈالتی ہے اور باعث نجات
بنتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ توبہ کرنے والا شخص اور اسی شرک وگناہ کے گڑھے میں نہ گرجائے ۔
اور وہ ہمیشہ اس بات پر نظر رکھے کہ شیطانی وسوسے اور اس کا نفس سے سابقہ راستے پر ہی نہ لے جائیں۔
دوسری تفسیر: یہ ہے کہ یہ جملہ خدا کی رہبروں کی رہبری کوقبول کرنے اور ان کی ولایت کو تسلیم کرنے کے وجوب کی طرف اشارہ ہے یعںی توبہ و ایمان و عمل صالح اسی
وقت باعث نجات ہوسکتے ہیں کہ جب یہ خدائی رہبروں کی بات کے زیرسایہ انجام پذیر ہوں۔ وہ ایک زمانے میں موسٰیؑ تھے ، دوسرے زمانہ میں پیغمبر اسلامؐ تھے۔ ان کے بعد امیرالمومنین علی علیہ
السلام تھے اور آج حضرت مهدی (سلام اللہ علیہ ) ہیں
کیونکہ ارکان دین میں سے ایک پیغمبر کی دعوت اور ان کی رہبری کوقبول کرنا ہے اور ان کے بعد ان کے جانشینوں کی رہبری کو قبول کرنا ہے. .
مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں امام باقرؑ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:
"ثم لعتذی" کے جملہ سے مراد ہے اہل بیت کی ولایت کی ہدایت ہے۔
اس کے بعد مزید فرمایا :
فوالله لوان جلا عبدالله عمره مابين الركن والمقام ثم
مات ولویجی بولايتنا كبه الله في النار على وجهه
خدا کی تے اگر کوئی شخص تمام عمر خانہ کعبہ کے پاس رکن و مقام کے درمیان عبادت
کرے اور پھردنیا سے اس حالت میں جائے کہ ہماری ولایت کو اس نے قبول نہ کیا ہو، تو
خدا اسے منہ کے بل جہنم کی آگ میں پھینکے گا۔
اس روایت کو اہل سنت کے مشہور محدث "ابو القاسم حاکم حسکانی" نے بھی نقل کیا ہے۔ ؎1
یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اصل کو ترک کرنا ، کسی حد تک موجب ہلاکت و تباہی ہے، بعد کی آیات میں غور و فکر کرنا ہی کافی ہے۔ کہ بنی اسرئیل موسٰیؑ اور ان کے جانشین ہارون
کی ولایت کے دامن کو چھوڑنے اور ان کی ہدایت کی پیروی سے باہرنکل جانے کے سبب کسی طرح سے گوسالہ پرستی اور شرک و کفر میں گرفتار ہوگئے۔
آلوسی نے تفسیر روح المانی میں ان روایات میں سے کچھ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اہل بیت کی محبت واجب ہونے میں تو ہمارے نزدیک بھی تردید کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا
بنی اسرائیل اور موسٰیؑ کے زمانے سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے ... ہماری مندرجہ بالا گفتگو سے واضح ہو جاتا ہے کہ آلوسی کا یہ اشکال بے بنیاد ہے۔
چونکہ اول تو بحث محبت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بات رہبری کر قبول کرنے سے متعلق ہے اور دوسرے اہل بیت میں رہبری کو منحصر کرنا مراد نہیں ہے بلکہ موسٰیؑ کے زمانے
میں وہ اور ان کے بھائی ہارون رہبر تھے ، اور ان کی ولایت کو قبول کرنا واجب تھا اور پیغمبراسلام صلی اہله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت کی ولایت اور آئمہ اہل بیت کے زمانے میں ان
کی ولایت کو قبول کرنا واجب تھا.
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مجمع البیان ، آیہ زیر بحث کے ذیل میں ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ بات بھی بالکل واضح و روشن ہے کہ اس آیت کے مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں لیکن یہ بات انہیں میں منحصر نہیں ہے ۔ بلکہ جو بھی شخص یا گروہ ان چاروں مراحل کوطے
کرے گا ، خدا کی مغفرت اور بخشش اس کے شامل حال ہوگی۔