Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۴۔ماحو ل کی مجبوری ایک نہانہ ہے

										
																									
								

Ayat No : 72-76

: طه

قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ۷۲إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۷۳إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ ۷۴وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ ۷۵جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّىٰ ۷۶

Translation

ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس جو کھلی نشانیاں آچکی ہیں اور جس نے ہم کو پیدا کیا ہے ہم اس پر تیری بات کو مقدم نہیں کرسکتے اب تجھے جو فیصلہ کرنا ہو کرلے تو فقط اس زندگانی دنیا ہی تک فیصلہ کرسکتا ہے. ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف کردے اور اس جادو کو بخش دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا اور اللہ سب سے بہتر ہے ا ورہی باقی رہنے والا ہے. یقینا جو اپنے رب کی بارگاہ میں مجرم بن کر آئے گا اس کے لئے وہ جہنم ّہے جس میں نہ مرسکے گا اور نہ زندہ رہ سکے گا. اور جو اس کے حضور صاحب هایمان بن کر حاضر ہوگا اور اس نے نیک اعمال کئے ہوں گے اس کے لئے بلند ترین درجات ہیں. ہمیشہ رہنے والی جنت ّجس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کہ یہی پاکیزہ کردار لوگوں کی جزا ہے.

Tafseer

									۴۔ماحو ل کی مجبوری ایک نہانہ ہے : زیر نظر آیات میں جادو گروں کی سرگزشتہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ ماحول کی مجبوری کامسئلہ ایک جھوٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتاانسان فاعل مختار ہے اور ارادے کی آزادی کامالک ہے س وقت بھی وہ مصہم ارادہ کرے اسے اسی وقت باطل کی طرف سے حق کی جانب اپنے راستے کو بدل سکتاہے ،چاہےاس کے ماحول کے تمام لوگ گناہ میںغرق اور منحرف ہی ہوں وہ جادوگر جوسالہاسال سے اسی شرک آلود ماحو ل میں نہایت شرک آمیز اعمال کے خود مرتکب ہو رہے تھے ، جس وقت انہوں نے ارادہ کرلیاکہ وہ حق کو قبول کریں اور اس کے راستہ میںعاشقانہ انداز ڈٹ جائیں تووہ کسی دھمکی سے نہ ڈر رے اور اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئے عظیم مفسرین مرحوم طبرسی کے قول کے مطابق : 
” کانوااوّل النھار کفاراً سحر ة و اٰخرالنھار شھداء ً بررة “ 
و ہ صبح کے وقت تو کافراور جادوگرتھے اور شا م کے وقت راہ حق کے نیکوکار شہیدبن گئے (1) ۔
اس سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ مذہب کی پیدائش کے بارے میں مادئین خصوصاً بالکل مارکسٹوں کے افسانے کِس قدر کمزوراور بے بنیادہیں، وہ ہر تحریک کاعامل اور سبب اقتصادی مسائل ہی کوسمجھتے ہیں جبکہ یہاں معاملہ بالکل برعکس تھاکیونکہ جادوگرشروع میں ایک طرف توفرعون کے غلبہ و اقتدارکے دباؤ سے اور درسری طرف اس کے اقتصادی لالچ میں آکر حق کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آئے تھے لیکن اللہ پرایمان نے ان سب چیزوں کو ختم کردی انہوں نے مال و مقام کہ جس کافرعون نے ان سے وعدہ کیاتھاایمان کے قدموں میں ڈال دیااور اپنی عزیز جان بھی اس عشق میں قربان کردی ۔


۱۔  تفسیر مجمع البیا ن ،ج ۴ ، ص ۴۶۴ ( آیہ ۱۲۶ سورہ اعراف کے ذیل میں) ۔