۲۔ ہم تجھے ،’ ’ بیّنات “ پرمقدم نہیں کرتے
قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ۷۲إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۷۳إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ ۷۴وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ ۷۵جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّىٰ ۷۶
ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس جو کھلی نشانیاں آچکی ہیں اور جس نے ہم کو پیدا کیا ہے ہم اس پر تیری بات کو مقدم نہیں کرسکتے اب تجھے جو فیصلہ کرنا ہو کرلے تو فقط اس زندگانی دنیا ہی تک فیصلہ کرسکتا ہے. ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف کردے اور اس جادو کو بخش دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا اور اللہ سب سے بہتر ہے ا ورہی باقی رہنے والا ہے. یقینا جو اپنے رب کی بارگاہ میں مجرم بن کر آئے گا اس کے لئے وہ جہنم ّہے جس میں نہ مرسکے گا اور نہ زندہ رہ سکے گا. اور جو اس کے حضور صاحب هایمان بن کر حاضر ہوگا اور اس نے نیک اعمال کئے ہوں گے اس کے لئے بلند ترین درجات ہیں. ہمیشہ رہنے والی جنت ّجس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کہ یہی پاکیزہ کردار لوگوں کی جزا ہے.
۔ ہم تجھے ،’ ’ بیّنات “ پرمقدم نہیں کرتے : یہ بات خاص طورپر توجہ ہے کہ انہوں نے بے منطق ودلیل فرعون کے مقابلے میں منطقی ترین تعبیر کواختیار کیپہلے انہوں نے کہاکہ ہم نے موسٰی کی حقانیت اور اس کی خدائی دعوت پرروشن اور وضح دلائل پائے ہیں اور ہم کسی بھی چیز کوان روشن اور واضح دلائل پرمقدم نہیں کریں گے اس کے بعد انہوں نے ” والذی فطرنا“ (قسم ہے اس کی جس نے ہمیںخلق فرمایا) کہہ کر اس مطلب کی تاکید کی کلمہ ” نظر نا “ ان کی فطرت ِ توحید ی کی طرف گویاایک بادشاہ ہے یعنی ہم اپنی روح کے ا ندر بھی توحیدکی جھلک دیکھ رہے ہیں اوردلیل عقل سے بھی سمجھ رہے ہیں توان واضح و آشکار دلائل کے ہوتے ہوئے ،ہم اس سیدھی راہ کوچھوڑ کر تیرے ٹیڑھے رستوں پر کیسے چل سکتے ہیں ؟
اس نکتہ کی طرفبھی توجہ کرناضروری ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے (والذی فطرنا )کوقسم کے معنی میں نہیں لیاہے بلکہ اسے ”ماجائنامن البینات “ کے معنی پرعطف جاناہے اس بناپر پوری جملے کامعنی اس طرح ہوگا : ہم تجھے ان واضح و روشن دلائل اور اس خداپرکہ جس نے ہمیںخلق کیاہے ہر گزمقدم نہ کریں گے
لیکن پہلی تفسیرزیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان دونوں کاایک دوسرے پر عطف مناسب نہیں ہے (غورکیجئےگا) ۔
۳۔مجرم سے کون مراد ہے ؟ زیر بحث آیات میں ہے : ” جوشخص بھی محشر میں مجرم (کی حیثت سے ) وارد ہوگا ، اس کے لیے جہنم کی آگ ہے ۔“
اس کاظاہری معنی ہمیشہ کاعذاب ہے یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ کیاہرمجرم کاانجام یہی ہے ۔
لیکن اس بات پرتوجہ کرتے ہوئے کہ بعد والی آیات میں کہ جواس کے فریق کے مقابلہ کوبیان کرتی ہیں،لفظ ” مئومن “ آیاہے اس سے واضح ہوجاتاہے کہ یہاں” مجرم ‘ ‘ سے مراد کافرہے علاوہ ازیں اس لفظ کاکافر کے معنی میں استعمال قرآن کی اور بھی آیات میں دکھائی دیتاہے ۔
مثلاً ، قوم لوط کے بارے میں جوہرگز اپنے پیغمبر پر ایمانہیں لائے ، یہ بیان ہواہے کہ :
”وامطرناعلیھم مطرً ا فانظر کیف کان عاقبة المجرمین “
ہم نے ان پر پتھر کی بارش کی ،دیکھو کہ مجرموں کاانجام کیاہوا ؟ ( اردو ترجمہ ) ۔
سورہ فرقرآن کی آیہ ۳۱ میں ہے :
”وکذالک جعلنالکل نبی عدوامن المجرمین“
ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے کچھ دشمن قرار دئے ہیں ۔