Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ دشمنوں کے ساتھ مدارات

										
																									
								

Ayat No : 43-48

: طه

اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ۴۳فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ۴۴قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَىٰ ۴۵قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ۴۶فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ۴۷إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ۴۸

Translation

تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے. اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے. ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں وہ ہم پر زیادتی نہ کرے یا اور سرکش نہ ہوجائے. ارشاد ہوا تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں. فرعون کے پاس جاکر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے فرستادہ ہیں بنی اسرائیل کو ہمارے حوالے کردے اور ان پر عذاب نہ کر کہ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں اور ہمارا سلام ہو اس پر جو ہدایت کا اتباع کرے. بیشک ہماری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ تکذیب کرنے والے اور منہ پھیرنے والے پر عذاب ہے.

Tafseer

									۲۔ دشمنوں کے ساتھ مدارات : لوگوں کے دلوں میں اثر ونفوذپیداکرنے کے لیے (چاہے وہ کتنے ہی گمراہ اور گنہگار کیونہ ہو ) قرآن کہتاکاسب سے پہلادستور یہ ہے کہ ان سے ملائمیت اور مہرو محبت کے ساتھ ملاقات کی جائے  خشونت اورسخی کے بعد کے مراحل سے تعلق رکھتی ہے اور اس وقت ہے دوستانہ طریقہ سے ملاقات کرنے کاکوئی اثر نہ ہو ۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں ان کی طرف کھنچیں،نصیحت حاصل کریں اورہدایت پائیںیااپنے برے کام کے انجام سے ڈریں : (لعلہ یتذکراو یخشی ) ۔
ہر مکتب کے لےے ضروری ہے کہ اس میں جذب و کشش ہواور بلالوگوں کو اپنے سے دورنہ بھگائے  انبیاء اور آئمہ بدیٰ علیہم اسلام کے حالات زندگی اسی طر ح اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انہیوں نے اپنی پوری زندگی میں کھبی بھی اس طرز عمل سے انحراف نہیں کیا ۔
ہاں ! یہ ہوسکتاہے کہ کوئی محبت آمیز طرز عمل بھی لوگوں کے ساتھ دل پر اثر انداز نہ ہو اور خشونت اور سخی کے سوااور کوئی چارئہ گار ہی نہ ہو ۔تو یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے لیکن ایک اصل کلی اور ابتدء ِ کار میں نہیں پہلافرینہ محبت اور ملائمت ہی ہے اور یہ وہی درد ہے جو زیرآیات ہمیں واضح طورپر دے رہی ہیں ۔
یہ بات جو بعض روایات میں منقول ہوئی ہے قابل توجہ ہے : 
موسٰی کو یہ تک حکم تھا کہ فرعون کواس کے بہترین نام کے ساتھ پکاریں ۔
شایداس کے تاریک دل پریہ بات اثر کرجائے