Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ہم تو حکم کے بندے ہیں

										
																									
								

Ayat No : 64-65

: مريم

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ۶۴رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ۶۵

Translation

اور اے پیغمبر علیھ السّلامہم فرشتے آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے ہیں ہمارے سامنے یا پس پشت یا اس کے درمیان جو کچھ ہے سب اس کے اختیار میں ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے. وہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے لہذا اس کی عبادت کرو اور اس عبادت کی راہ میں صبر کرو کیا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہمنام ہے.

Tafseer

									ہم تو حکم کے بندے ہیں :


اگرچہان آیات کی ایک خا ص شان نزول ہے جو اوپربیان ہوئی ہے ، لیکن یہ اس بات کے مانع نہیں ہے کہ اس کا گزشتہ آیات کاساتھ منطقی رابط و تعلق ہو کیونکہ یہ اس بات پر ایک راکید ہے کہ جبرئیل جو کچھ گزشتہ آیات میں لے کر آیا ہے وہ سب کاسب بے کم و کاست خداکی طرف سے ہے اورکوئی بات اس نے خود اپنی طرف سے نہیں کی ہے  پہلی آیت قاصد وحی کی زبان کہتی ہے : ہم تیرے پروردگار کے فرمان کے بغیر نازل نہیں ہوتے ۔(ومانتنز ل الابامرربک ) سب کچھ اسی کی طرف سے ہے ،اورہم تو جان و دل برکف بندے ہیں ، جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارت پیچے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اسی کاہے ( لہ مابین ایدیناوماخلفنا ومابین ذالک ) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ آئندہ وگزشتہ اور زمانئہ حال ،یہا ں اور وہاں اور سب جگہ ،دنیا و آخرت و برزخ سب کچھ پروردگار کی ذات پاک کے ساتھ متعلق ہے اور اسی کاہے ۔
اور یہ بھی جان لو کہ : ” تمہاراپروردگار نہ فراموش کرنے والاتھااور نہ ہے (وماکان ربک نسیا) ۔
بعض مفسرن نے ” لہ مابین ایدینا و ماخلفناومابین ذالک “ کی متعدد تفسیر یں کی ہیں جو تقریبا گیارہ تک پہنچ جاتی ہیں ،لیکن جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیاہے وہ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایاگیا ہے : یہ سب تیرے پروردگار کے کے حکم سے ہے ” جو آسمان ں ، زمین اور جوکچھ ان کے درمیان ہے کا پروردگار ہے ،(رب السمٰوٰت والارض ومابینھما) ۔
اب جبکہ یہ بات ہے اور تمام ہدایات اسی کے طر سے ہیں ” تو پھر صرف اسی کی عبادت کرو ( فاعبدہ ) ۔
ایسی عبادت کہ جو توحید و اخلاص کے ساتھ ہو ، اور چونکہ اس راہ بندگی و اطاعت کی راہ میں صابر رہ : ( و اصطبر لعبادتہ ) ۔ 
اور آخر ی جملہ میں ہے : کیاتجھے خداکا کوئی مثل و مانند نظر نہیں آتا ہے : (ھل تعلم لہ سمیا ) ۔
یہ جملہ در حقیقت اس بات پر ایک دلیل ہے جو اس سے پہلے جملے میں بیان ہوئی ہے ، یعنی کیا اس پاک ذات کے لیے کوئی شریک اور مثل و مانندہے کہ جس کی طرف تم سوال دراز کرو اس کی عبات کرو ؟ 
لفظ ”سمی “ اگر چہ ہمنام کے معنی میں ہے لیکن یہ بات صاف طور پر واضح و روشن ہے کہ اس مقام پر صرف نام مراد نہیں ہے ،بلکہ نام کا معنی و مفہوم مراد ہے ، یعنی کیا خد اک سواکوئی اور خالق ، رازق ، محئی ممیت ،ہر چیز پر قادر تمہیں مل سکتا ہے ؟