Tafseer e Namoona

Topic

											

									  یہ سچے پیغمبر تھے ،لیکن

										
																									
								

Ayat No : 59-60

: مريم

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ۵۹إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا ۶۰

Translation

پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنہوں نے نماز کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پس یہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے. علاوہ ان کے جنہوں نے توبہ کرلی, ایمان لے آئے اور عمل صالح کیا کہ وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا.

Tafseer

									یہ سچے پیغمبر تھے ،لیکن


اس سور ہ کی یاد آوریوں کے آخری حصّہ میں ، حضرت ادریس (علیه السلام) پیغمبر کے بارے میں بات گہی ہے ۔
پہلے فرمایا گیاہے : اپنی آسمانی کتاب (قرآن ) میں ادریس کو یاد کرو وہ صدیق اور پیغمبر تھا (واذکرفی الکتاب ادریس انہ کان صدیقا نبیا) ۔
”صدیق “ جیساکہ پہلے بیان کرچکے ہیں  بہت ہی سچ بولنے والے ،خداتعالیٰ کی آیات کی تصدیق کرنے والے اور حق و حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے شخص کو کہتے ہیں ۔
اس کے بعد بلندپایہ مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : ہم نے اسے ایک بلندمقام تک پہنچادیا(ورفعناہ مکاناعلیا ) ۔
اس بارے میں کہ اس سے حضرت ادریس کے مقام معنوی کی عظمت مراد ہے یا حسی مکان کی بلندی مراد ہے ، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ہماری طرح بعض نے اس عظٰیم پیغمبرکے معنوی مقامات اور روحانی درجات کی طرف اشارہ سمجھا ہے بعض کانظریایہ ہے کہ خداوند تعالیٰ حضرت ادریس (علیه السلام) کو حضرت عیٰسی (علیه السلام) کی طرح آسمان کی طرف لے گیا اور وہ (مکاناعلیا) کی تعبیر کو اوپروالی آیت میں اسی کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں لیکن لفظ ”مکان “ کااطلاق معنوی مقامات کے معنی میںعام چیزہے ۔ سورہ یو سف کی آیہ ۷۷ میں ہے کہ حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہ جنہوں نے غلطکام انجام دیاتھا : 
انتم شرمکانا
تم مقام و منزلت کے لحاظ سے بدترین آدمی ہو ۔
بہر حال حضرت ادریس (علیه السلام) خداوند تعالیٰ کے ایک بلند مقام اور عالی مرتبہ پیغمبرہیں کہ جن کے حالات کی تفصیل نکات کے ضمن میں آئے گی ۔
اس کے بعد ان تمام افتخارات و اعزازات کو ، جو گزشتہ آیات میں عظیم نبیاء کے سلسلے میں اور ان کی صفات و حالات اور ان نعمتوں کے بارے میں جو خداوندتعالیٰ نے انہیںفرمائی تھیں ، اجتماعی صورت میں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا : وہ ایسے انبیاتھے کہ جنہیں خدانے اپنی نعمتوں سے نوازاتھا (اولٓئک الذین النعم اللہ علیھم من النبیین ) ۔
ان میں سے بعض آدم کی اولاد میں سے تھے اور بعض ان لوگوں کی اولاد میں سے تھے جو نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور بعض ابرہیم او ر اسرئیل کی ذریت میں سے تھے ۔
(من ذریةاٰدم وممن حملنانوح ومن ذریةابرھیم و اسرائیل ) ۔
باوجود اس کے کہ یہ سب انبیاء آدم کی اولاد سے تھے ان کی کسی نہ کسی بزرگ پیغمبرسے نزدیکی کو مدنظررکھتے ہوئے انہیں ذریت ابرہیم و اسرائیل سے یاد کیا ہے اور اس آیت کی ترتیب میں ذریت آدم سے مراد اور ادریس (علیه السلام) ہیں جو مشہورقول کی بناپر نوح (علیه السلام) پیغمبر کے جدّ امجد تھے نوح کے ساتھ کشتی میں سوارہونے والوں کی ادلاد سے مراد ابرہیم میں کیونکہ ابرہیم (علیه السلام) نوح کے بیٹے سام کی اولاد میں سے تھے ۔
اور ذریت ابرہیم سے مراد اسحق (علیه السلام) اور یعقوب میں اوراسرائیل سے مرادموسٰی (علیه السلام) ،ہارو ن (علیه السلام) ،یحییٰ اورعیسٰی (علیه السلام) ہیں  جن کے حلات اور بہت سی اعلیٰ صفات کی طرف گزشتہ آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔
اس کے بعد اس بحث کی ان عظیمانبیا ء کے سچے پروردگاروں کی یاد سے تکمیل کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : اور ان لوگوں میں سے کہ جنہیں ہم نے ہدایت کی ہے اور انہیں منتخب کیاہے ایسے لوگوں ہیں کہ جب خدائے رحمن کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو وہ خاک پر گرپڑ تے ہیں اور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اوران کی آنکھوں سے آنسوؤں کاسیلاب بہہ نکلتا ہے (وممن ھدیناواجبینااذاتتلیٰ علیھم اٰیات الرحمن خرواسجدا وبکیا) (۱) ۔
بعض مفسرین نے ” ممن ھدیناواجبین کے جملے کو انہی انبیاء کے بارے میں کہ جن کی طر ف آیت کے آغاز میں ارشارہ ہواہے ایک دوسرابیان سمجھاہے ، لیکن ہم نے جو کچھ بیان کیاہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے (۲) ۔
اس بات کی گواہی وہ حدیث ہے کہ جو امام زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آ پ نے اس کی تلاو ت کے وقت فرمایا :
نحن عنینابھا 
اس آیت سے مرد ہم اہل بیت ہیں (۳) ۔
ظاہرہے کہ اس جملے سے ہرگز انحصارمراد نہیں ہے بلکہ یہ نبیاء کے سچے پیروکاروں کے واضح مصداق کابیان ہے اور اہم نے اسی تفسیرنمونہ میں بارہا اس مطلب کے بہت سے نمونے پیش کیے ہیں ۔
لیکن اس حقیقت پر توجہ نہ کرنا اس بات کاسبب بناکہ آلوسی جیسے مفسرین روح المعانی میں اشتباہ کا شکار ہوگئے اوراس حدیث پر طعن کرنے لگے اوراسے احادیث شیعہ کے معتبر نہ ہونے کی دلیل سمجھنے لگے اور ایہی نتیجہ ان راوایات کے واقعی مفہوم سے واقف نہ ہونے کا ہے کہ جو آیا ت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں ۔
یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ : گزشتہ آیات میں حضرت مریم (علیه السلام) کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی ہے ، حالانکہ وہ انبیاء میں سے نہیں تھیں وہ بھی ان افراد میں سے ہیں کہ جو ” من ھدینا“ کے جملے ہرزمانہ میں اور ہر جگہ ایک یاکئی مصداق رکھتا تھا اور رکھتا ہے ۔
یہی و جہ ہے کہ ہم سورہ نساء کی آیہ ۶۹ میں بھی یہ مشاہد ہ کرتے ہیں کہ اس میں خداوند تعالیٰ کی نعمتوں کو صرف انبیاء تک منحصر نہیں کیا گیا بلکہ صدیقین و شہداء کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے : 
’ ’ فاولٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین و الشھداء “ 
سورئہ مائد ہ کی آیہ ۷۵ میں بھی حضرت عیٰسی (علیه السلام) کو ” صدیقہ “سے تعبیر کیاگیاہے اور فرمایا گیا ہے : 
وامہ صدیقة 
اس کے بعد اس گروہ کے بارے میں کہ جو ابنیاء ساز مکتب سے الگ ہوکہ ناخلف پیروکار بن گئے ، گفتگو کی گئی ہے  قرآن ان کے کچھ برے اعمال کو شمار کرتاہے اور کہتا ہے : ان کے بعد ایسی ناخلف اولاد ہوئی کہ جنہونے نما ز کو ضائع کردیا اور شہوت کی پیروی کا کرنے لگے یہ لوگ جلد ہی اپنی گمراہی کی سزاپالیں گے : ( فخلف من بعد ھم خلف اضاعو الصلٰوة واتبعو ا الشھوات فسوف یا قون غنیا ) ۔
” خلف “ (بروزن برف ) غیرصالح اولاد کے معنی میں ہے اور اصطلاحااس کو ” ناخلف “ کہتے ہیں جبکہ ” خلف “ (بروزن صدف ) نیک اور صالح فرزندکے معنی میں ہے ۔
ممکن ہے یہ جملہ اس گروہ کی طرف اشارہو کہ جو نبی اسرائیل میں سے گمراہی کی راہ پر نکلاتھا  انہونے خداکو بھلادیا تھا ، خواہشات کی پیروی کو ذکر خداپر ترجیح دینے لگ گئے تھے انہونے دنیا کو فسادسے بھر دیا اور اآخر کار دنیامیں بھی انہونے اپنے برے اعمال کانتیجہ دیکھ لیااور آخر میں بھیان اکانتیجہ دیکھیں گے ۔
اس بارے میں کہ اس مقا م پر ” اضاعہ صلاة “ سے مراد نماز کوتر ک کرنا ہے یا اس کے وقت سے تاخیر کرنا ہے یا ایسا اعمال بجالاناہے جس کی و جہ سے معاشرے میں نماز ضائع ہوجائے ،مفسرین نے مختلف احتمال پیش کیے ہیں لیکن آخری معنی ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتاہے ۔
اس مقام پرتمام عبادات میں سے صرف نماز ہی کاذکر کیوں کیاگیا ؟ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ نماز ،جیساکہ ہم جانتے ہیں انسان کو گناہوں سے روکتی ہے ۔جب یہ رکاوت دور ہوجاتی ہے تو اس کاقطعی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسان خوہشات میںغرق ہوجاتاہے ۔
دوسرے الفاظ میں جس طرح پیغمبر وں نے اپنے مقام کے ارتقاکو یاخداسے شروع کیا تھا اور جس وقت خداکی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ خاک پر گر جاتے تھے اورگریاکرتے تھے ،ان ناخلف پیروکاروں نے اپنے تباہی کاآغاز یادخداکو بھلادینے سے کیا ۔
قرآن یہی چاہتا ہے کہ ایمان و حق کی طرف آنے کی راہ کھلی رکھے یہاں بھی ناخلف نسلوں کے انجام کاذکرکرنے کے بعد قرآن کہتا ہے :
مگر وہ لوگ کہ جو توبہ کرلیں گے ،ایمان لے آئیں گے اور عمل صالح انجام دیں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذراسا بھی ظلم نہ ہوگا : ( الامن تاب وامن وعمل صالحافاولیئک ید خلون الجنة ولایظللمون شیئا ) ۔

 

 


۱۔” مسجد“ ساجد (سجدہ کرنے والا) کی جمع ہے اور ” بکیا“ باکی (گریہ کرنے والا) کی جمع ہے ۔
۲۔ کیونکہ اگریہ گزشتہ انبیاء کی طرف اشارہ ہوتو فعل مضارع ” تتلی “ جو آئند ہ کے زمانہ کے ساتھ مربوط ہے اسے ہم آہنگ نہیں ہوگا سوائے اس صورت کے کہ ” کانو ا “ یااسی جیسا کوئی لفظ مقدر سمجھیں ، جو کہ خلاف ظاہرہے ۔
۳۔مجمع البیان محل آیہ کے ذیل میں ۔