بےایمانوں کا ٹھکانا
وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ ۖ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا ۹۹وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَافِرِينَ عَرْضًا ۱۰۰الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَنْ ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا ۱۰۱أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا ۱۰۲
اور ہم نے انہیں اس طرح چھوڑ دیا ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں اور پھر جب شُور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو ایک جگہ اکٹھا کرلیں گے. اور اس د ن جہّنم کو کافرین کے سامنے باقاعدہ پیش کیا جائے گا. وہ کافر جن کی نگاہیں ہمارے ذکر کی طرف سے پردہ میں تھیں اور وہ کچھ صَننا بھی نہیں چاہتے تھے. تو کیا کافروں کا خیال یہ ہے کہ یہ ہمیں چھوڑ کر ہمارے بندوں کو اپنا سرپرست بنالیں گے تو ہم نے جہنمّ کو کافرین کے لئے بطور منزل مہیّا کردیا ہے.
بےایمانوں کا ٹھکانا
گزشتہ آیات میں بتایا گیا تھا کہ یاجوج و ماموج کو روکنے کے لیے ایک دیوار بنائی گئی اور یہ دیوار قیامت کے موقع پر درہم و برہم ہوجائے گی ۔ اسی مناسب سے زیر بحث آیات میں قیامت کے بارے میں گفتگو جاری ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اس روز کہ جب یہ دنیا ہوجائے گی تو ہم انھیں چھوڑدیں گے اور وہ باہم موجزوں ہوںگے( وَتَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْمَئِذٍ یَمُوجُ فِی بَعْض) ۔
” یَمُوجُ “ اس موقع پر لوگوں کی کثرت کی وجہ سے استعمال ہوا ہے ۔ جیسا کہ ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ فلاں موقع پر لوگوں کا دریا موجزن تھا ۔ یا پھر یہ لفظ اضطراب اور لرزنے کی طرف اشارہ ہے اور اس سے مرادیہ ہے کہ اس دن لوگوں کے بدن پر کپکپی طاری ہوگی گویا ان کے جسم پانی کی لہروں کی طرح لرز رہے ہوں گے ۔
البتہ ان دونوں تفسیروں میں کوئی باہمی تضاد نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے اس تعبیر سے دونوں پہلومرا ہوں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اس دن صور پھونکا جائے گا ۔ ہم انہیں نئی زندگی بخشیں گے اور ان سب کو جمع کریں گے(وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَجَمَعْنَاھُمْ جَمْعًا ) ۔
اس میں شک نہیں کہ تمام انسان اس میدان میں جمع ہوں گے اور کوئی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہوگا ۔
”َجَمَعْنَاھُمْ جَمْعًا“کی تعبیر بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔
آیات قرآن سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان کے اختتام اور دوسرے جہان کے آغاز میں دو بڑی عظیم تبدیلیاں عالم میں رونما ہوں گی ۔
پہلی: عظیم تبدیلی یہ ہوگی کہ تمام موجودات اور انسان فنا ہوجائیں گے ۔ یہ ایک ضرب کا پرو گرام ہے ۔
دوسری:عظیم تیدیلی معلوم نہیں کہ پہلے تحوّل و تغیر سے کتنی دیر بعد ہوگی اور وہ ہے مُردوں کا قبروں سے اٹھنا ۔ یہ بھی ایک ضرب کا پروگرام ہے ۔
قرآن نے”نُفِخَ فِی الصُّور“ کہہ کر ان پروگراموں کی طرف اشارہ کیا ہے نشاء الله ہم سورہٴ زمر کی آیت ۶۸ کے ذیل میں اس کی تفصیل بیان کریں گے ۔
اس مقام پر ایک روایت ہے کہ جو اصبغ نباتہ نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے ۔ امام﷼ نے”وَتَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْمَئِذٍ یَمُوجُ فِی بَعْض“ کی تفسیر میں فرمایا:
اس سے مراد قیامت ہے ۔ (۱)
ہوسکتا ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ ہم نے جو کچھ کہا ہے یہ روایت اس کے منافی ہوکیونکہ ہم نے اسے فناء نیا کا ایک مرحلہ قرار دیا ہے( جیسا کہ قبل اور بعد کی آیات کا ظاہری مفہوم نکلتا ہے) ۔ لیکن ایک نکتے کی طرف توجہ سے یہ اشکال ختم ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات” یومِ قیامت“ وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ جس میں قیامت کے مقدمات بھی شامل ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے مقدمات میں فناء دنیا کے مرحلے بھی شامل ہیں ۔
اس کے بعد کفار کے حالات کے بارے میں بات شروع ہوتی ہے ۔ ان کی صفات جوان کے انجام کی موجب ہیں، وہ بھی بیان کی گئی ہیں ان کے اعمال کا انجام بھی ۔ ارشاد ہوتاہے: ہم اس روز جہنم ان کے سامنے پیش کریں گے( وَعَرَضْنَا جَھَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِلْکَافِرِینَ عَرْضًا) ۔
جہنم اپنے طرح طرح کے عذاب اور مختلف دردناک سزاوٴں کے ساتھ ان کے سامنے پوری طرح آشکار ہوگی ۔ اسے دکھنا بھی ان کے لیے دردناک اور جانکاہ عذاب ہے چہ جائیکہ گرفتارِ عذاب جہنم ہونا ۔
یہ کون سے کافروں کا ذکر ہے اور وہ اس انجام کوکیوں پہنچیں گے، اس سلسلے میں قرآن ان کا یوں تعارف کرواتا ہے: وہی کہ جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا او رحق کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ انہیں میری یا دآتی(الَّذِینَ کَانَتْ اٴَعْیُنُھُمْ فِی غِطَاءٍ عَنْ ذِکْرِی) ۔
وہی کہ جن کے کان تو تھے لیکن تابِ سماعت نہ تھی(وَکَانُوا لَایَسْتَطِیعُونَ سَمْعًا) ۔
در اصل وہ لوگ تلاش حق او رادراکِ حقائق کا نہایت اہم وسیلہ کہ جو خوش بختی و بدبختی کا عامل ہے، بے کار کرچکے ہیں ۔ یعنی ان کی یکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان بیکار ہوچکے ہیں ۔ غلط افکار، تعصب، کینہ پروری اور بری صفات کی وجہ سے ان کی بصارت اور سماعت گویا بے کار ہوچکی ہے ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ آنکھ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
ان آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا ۔ لہٰذا انہیں میری یاد سجھائی نہیں دیتی تھی ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ چونکہ وہ غفلت کے پردے میں تھے اس لیے انہوں نے آثارِ الٰہی نہیں دیکھے اس لیے حقیقت کو افسانہ سمجھ کر الله کو بھول چکے ہیں ۔
جی ہاں! حق کا چہرہ آشکار ہے اور اس جہان کی ہر چیز انسان کے ساتھ انسان کے ساتھ بات کرتی ہے ۔ صرف چشم بینا اور گوش شنوا کی ضرورت ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یاد خدا کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو آنکھ سے دیکھی جائے ۔ جو کچھ دیکھا جاتا ہے وہ اس کے آثار ہیں اور یہی آثار کی یاد کا سبب ہیں ۔
اگلی آیت میں ان کے انحراف کی بنیادی وجہ بتائی گئی ہے ۔ یہی وہ انحراف ہے جو دیگر انحرافات کا باعث ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: کیا کافروں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ وہ میری بجائے میرے بندوں کو اپنا ولی و سرپرست بنا سکتے ہیں( اٴَفَحَسِبَ الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنْ یَتَّخِذُوا عِبَادِی مِنْ دُونِی اٴَوْلِیَاءَ) ۔
یہ بندے کہ جنہیں معبود بنایا گیا ہے مثلاً حضرت عیسیٰ اور فرشتے، ان کا مقام جس قدر بھی بلند ہو، کیا ان کے پاس کوئی چیز خود اپنی طرف سے بھی ہے کہ وہ کسی کی خدا کی بجائے سرپرست یکرسکیں یا اس کے برعکس جو کچھ بھی ان کے پاس ہے وہ بھی خدا کی طرف سے ہے ۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی اس کی ہدایت کے محتاج ہیں ۔
یہ ایسی حقیقت ہے جو کافروں نے بھلا رکھی ہے اور شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔
آیت کے آخر میں مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا ہے: جہنم کو ہم نے کافروں کی منزل کے طور پر تیار کیا ہے اور اسی منزل پر ان کا استقبال ہوگا(إِنَّا اٴَعْتَدْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ نُزُلًا) ۔
”نُزُل“(بروزن”رُسُل“) منزل کے معنی میں بھی آیا ہے اور اس چیز کے لیے بھی جو مہمان کی پذیرائی کے لیے تیار کی جائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ پہلی چیز ہے کہ جو مہمان کو پیش کی جاتی ہے مثلاً شربت یا پھل وغیرہ کہ جو مہمان کو آنے سے پہلے پیش کرتے ہیں ۔
۱۔ تفسیر المیزان، زیر بحث آیت کے ذیل میں، بحوالہ تفسیر عیاشی ۔