Tafseer e Namoona

Topic

											

									  لئن اتبعت اھواء ھم

										
																									
								

Ayat No : 120-121

: البقرة

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ۱۲۰الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ۱۲۱

Translation

یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کی ملّت کی پیروی نہ کرلیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت صرف ہدایت هپروردگار ہے--- اور اگر آپ علم کے آنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو پھر خدا کے عذاب سے بچانے والا نہ کوئی سرپرست ہوگا نہ مددگار. اور جن لوگوں کو ہم نے قرآن دیا ہے وہ اس کی باقاعدہ تلاوت کرتے ہیں اور ان ہی کا اس پر ایمان بھی ہے اور جو اس کا انکار کرے گااس کاشمار خسارہ والوں میں ہوگا.

Tafseer

									اس جملے سے ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ مقام عصمت پر فائز ہونے کے باوجود کیا ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام کجرو یہودیوں کی خواہشات کی پیروی کریں۔
 اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی آیات میں ایسی تعبیریں بار بار نظر آتی ہیں اور یہ کسی طرح سے بھی انبیاء کے مقام عصمت کی نفی نہیں کرتیں کیونکہ ایک طرف تو ان میں جملہ شرطیہ شرط کے وقوع کی دلیل نہیں دوسری طرف عصمت انبیاء کو گناہ سے جبرا تو نہیں روکتی بلکہ پیغمبر و امام گناہ پر قدرت رکھتے ہیں اور ارادہ و اختیار کے حامل ہوتے ہیں اس کے با وجود ان کے دامن گناہ سے کبھی آلودہ نہیں ہوتے۔ یہ بھی ہے کہ اگر چہ خطاب پیغمبر کو ہے لیکن ہوسکتاہے مراد سب لوگ ہو