Tafseer e Namoona

Topic

											

									  خدائی معلم اور یہ نا پسندیدہ کام؟

										
																									
								

Ayat No : 71-78

: الكهف

فَانْطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا ۷۱قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ۷۲قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ۷۳فَانْطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا ۷۴قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ۷۵قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي ۖ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا ۷۶فَانْطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ۷۷قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۷۸

Translation

پس دونوں چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو اس بندہ خدا نے اس میں سوراخ کردیا موسٰی نے کہا کہ کیا آپ نے اس لئے سوراخ کیا ہے کہ سواریوں کو ڈبو دیں یہ تو بڑی عجیب و غریب بات ہے. اس بندہ خدا نے کہا کہ میں نے نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے. موسٰی نے کہا کہ خیر جو فروگزاشت ہوگئی اس کا مواخذہ نہ کریں اور معاملات میں اتنی سختی سے کام نہ لیں. پھر دونوں آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک نوجوان نظر آیا اور اس بندہ خدا نے اسے قتل کردیا موسٰی نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاکیزہ نفس کو بغیر کسی نفس کے قتل کردیا ہے یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے. بندہ صالح نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے ہیں. موسٰی نے کہا کہ اس کے بعد میں کسی بات کا سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں کہ آپ میری طرف سے منزل عذر تک پہنچ چکے ہیں. پھر دونوں آگے چلتے رہے یہاں تک کہ ایک قریہ والوں تک پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا ان لوگوں نے مہمان بنانے سے انکار کردیا پھر دونوں نے ایک دیوار دیکھی جو قریب تھا کہ گر پڑتی - بندہ صالح نے اسے سیدھا کردیا تو موسٰی نے کہا کہ آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے. بندہ صالح نے کہا کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا موقع ہے عنقریب میں تمہیں ان تمام باتوں کی تاویل بتادوں گا جن پر تم صبر نہیں کرسکے.

Tafseer

									خدائی معلم اوریہ نا پسندیدہ کام؟
موسیٰ اس عالمِ ربانی کے ساتھ چل پڑے ۔ چلتے چلتے ایک کشتی تک پہنچے اور اس میں سوار ہو گئے ۔ (فَانطَلَقَا حَتَّی إِذَا رَکِبَا فِی السَّفِینَةِ) ۔
یہاں سے ہم دیکھتے ہیں کہ اب قرآن تثنیہ کی ضمیر استعمال کرنے لگا ہے ۔ یہ اشارہ ہے حضرت موسیٰ(ع) اور اس عالمِ بزرگوار کی طرف۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) کے ہمسفر یوشع کی ماموریت اس مقام پر ختم ہوگئی تھی اور وہ یہاں سے پلٹ گئے تھے یا پھر یہ ہے کہ وہ موجود تو تھے لیکن اس معاملے سے ان کا تعلق نہیں تھا لہٰذا انھیں یہاں نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ لیکن پہلا احتمال زیاہ قوی معلوم ہوتا ہے ۔
بہر حال وہ دونوں کشتی پر سوار ہوگئے تو اس عالم نے کشتی میں سوراخ کردیا (خَرَقَھَا) ۔
جیسا کہ راغب نے مفرادت میں کہا ہے ”خَرَق“ کسی چیز کو بے سوچے سمجھے تباہ کرنے کی نیت سے چیر نے پھاڑنے کے معنی میں ہے اور اس عالم کا کام ظاہری طور پر یوں ہی لگتا تھا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ ایک طرف تو اللہ کے عظیم نبی بھی تھے لہٰذا انھیں لوگوں کی جان و مال کا محافظ بھی ہونا چاہیٴے تھا اور انھیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرنا چاہیٴے تھا اور دوسری طرف ان کا انسانی ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا اسے ایک طرف رکھا اور اس کام پر اعتراض کردیا اور ”کہا: کیا آپ نے اہلِ کشتی کو غرق کرنے کے لیے اس میں سوراخ کردیا ہے ۔ واقعاً آپ نے کس قدر بُرا کام انجام دیا ہے“ (قَالَ اٴَخَرَقْتَھَا لِتُغْرِقَ اٴَھْلَھَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا إِمْرًا) ۔
اس میں شک نہیں کہ اس عالم کا مقصد کشتی والوں کو غرق کرنا نہ تھا لیکن اس عمل کا نتیجہ غرق ہونے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا لہٰذا حضرت موسیٰ(ع) نے لامِ غایت کے ساتھ اسی طرف اشارہ کردیا کیونکہ لام غایت مقصد بیان کرنے کے لیے آتی ہے ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک شخص بہت کھا نا کھا تا جائے تو اسے کہا جائے کہ کیوں اپنے آپ کو مارنا چاہتے ہو ۔یقینااس کا یہ مقصد تو نہیں کہ اپنے آپ کو مار ڈالے لیکن ہو سکتا ہے اس کے عمل کا یہی نتیجہ نکلے ۔
”اِمر“ (بر وزنِ’ ’شِمر“) حیرت انگیز اہم کا م یا بہت برے کام کو کہا جاتا ہے اور یہ کام واقعاً ظاہری طور پر تعجب انگیز ہے کہ کسی کشتی انگیز ہیں بہت سے مسافر سوار ہوں اور اس میں سوراخ کرد یا جائے ۔
بعض روایات میں ہے کہ اہلِ کشتی جلد ،ہی متوجہ ہو گئے اور انھیں نے اس کو کسی ذریعے سے پر کردیا لیکن اب وہ کشتی صحیح نہیں رہ گئی تھی ۔
اس وقت اس عالم نے بڑی متانت کے ساتھ مو سیٰ پر نگاہ دالی ”کہا :میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکوگے “

 (قَالَ اٴَلَمْ اٴَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِی صَبْرًا) ۔
اس واقعے کی اہمیت کے پیش نظر حضرت موسیٰ(ع) کی عجلت اگر چہ فطری تھی تا ہم وہ پشیمان ہوئے ۔ انھیں اپنا معاہدہ یاد آیا لہٰذا معذرت آمیز لہجے میں استاد سے ”کہا: اس بھول پر مجھ سے مواٴخذہ نہ کیجئے اوراس کام پر مجھ پر سخت گیری نہ کیجئے (قَالَ لَاتُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ وَلَاتُرْھِقْنِی مِنْ اٴَمْرِی عُسْرًا) ۔ یعنی اشتباہ ہوگیا ۔ اب وہ وقت گزر گیا ہے آپ اپنی بزرگی کی وجہ سے صرف نظر کریں ۔
”لاتُرْھِقْنِی“”ارھاق“کے مادہ سے قہر و غلبہ سے کسی چیز کو ڈھانپنے کے معنی میں ہے کبھی یہ تکلیف دینے کے معنی میں بھی آتا ہے ۔زیر بحث جملے میں مراد یہ ہے کہ مجھ پر سختی نہ کیجئے اور مجھے تکلیف میں نہ ڈالیں اور اس کام کی وجہ سے اپنا فیض علم مجھ سے منقطع نہ کریں ۔
ان کا دریائی سفر ختم ہوگیا ۔ وہ کشتی سے اتر آئے ۔سفر جاری تھا ۔ اثنائے راہ میں انھیں ایک بچہ ملا لیکن اس عالم نے کسی تمہید کے بغیر ہی اس بچے کو قتل کردیا (فَانطَلَقَا حَتَّی إِذَا لَقِیَا غُلَامًا فَقَتَلَہ) ۔
حضرت موسی(ع) سے پھر نہ رہا گیا ۔ یہ نہایت وحشتناک منظر تھا ۔ بلاجواز اور بے وجہ ایک بے گناہ بچے کا قتل ، ایسی چیز نہ تھی کہ حضرت موسی(ع) خاموش رہ سکتے ۔ آپ غصے سے آگ بگولہ ہو گئے ۔ غم و اندوہ اور غصے کا یہ عالم تھا کہ آپ نے پھر اپنے معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے اب کے شدید تر اور واضح تر اعتراض کیا ۔ یہ واقعہ بھی پہلے واقعے کی نسبت زیادہ وحشتناک تھا ۔ وہ کہنے لگے: کیا آپ نے ایک بے گناہ اور پاک انسان کو قتل کردیا ہے جبکہ اس نے کسی کو قتل نہیں کیا ( قَالَ اٴَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّةً بِغَیْرِ نَفْسٍ) ۔
واقعاً آپ نے کیسا برا کام انجام دیا ہے ( لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا) ۔
لفظ ”غُلَام“ جوانِ نورس کے معنی میں ہے ۔ وہ حد بلوغ کو پہنچاہویا نہ پہنچا ہو ۔
جس نوجوان کو اس عالم نے قتل کیا تھا وہ حد بلوغ کو پہنچا ہوا تھا یا نہیں اس سلسلے میں مفسّرین میں اختلاف ہے ۔
بعض نے”نَفْسًا زَکِیَّةً“(پاک اور بے گناہ انسان)کو اس بات کی دلیل قرار دیا ہے کہ وہ بالغ نہیں تھا ۔
البتہ آیت کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔
”نُکْر“قبیح اور منکر کے معنی ہے ایسے کام کا نتیجہ بھی”امر“سے زیادہ ہے جو کشتی میں سوراخ کرنے کے واقعے کے لیے آیا ہے ۔اس کی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ ان کے پہلے کام نے چند لوگوں کوخطرے میں ڈال دیا تھا اور وہ لوگ جلد ہی متوجہ ہوگئے اور انھوں نے خطرے کو اپنے آپ سے دور کردیا لیکن دوسرے کام میں ظاہراً وہ ایک جرم کے مترکب ہوئے تھے ۔
اس عالم بزرگوار نے پھر اپنے خاص اطمینان اور نرم لہجے میں وہی جملہ دہرایا: ”کہا: میں نے تجھ سے نہ کہا تھا کہ تم ہر گز میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے“ (قَالَ اٴَلَمْ اٴَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِی صَبْرًا) ۔
پہلے اور اس جملے میں فرق یہ ہے کہ اس میں لفظ ”لَک“کا اضافہ ہے کہ جو مزید تاکید کے لیے ہے یعنی میں نے یہ بات خود تم سے کہی تھی ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا عہد یاد آگیا ۔ انھیں بہت احساسِ شرمندگی ہو رہا تھا کیونکہ دو مرتبہ یہ پیمان ٹوٹ چکا تھا چاہے بھول کر ہی ایسا ہوا ہو ۔ انھیں خیال آرہا تھا کہ ہوسکتا ہے استاد کی بات صحیح ہو کہ انھوں نے تو پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ ابتداء میں ان کے کام موسیٰ کے لیے نا قابلِ برداشت ہوں گے ۔ موسیٰ نے پھر غذر خواہی کے لہجے میں کہا کہ اس دفعہ بھی مجھ سے صرفِ نظر کیجیے اور میری بھول چوک کو نظر انداز کردیجیے اور ”اگر اس کے بعد میں آپ کے کاموں کے بارے میں وضاحت کا تقاضا کروں (اور آپ پر اعتراض کروں) تو پھر بے شک مجھے نہ رکھیں اور اس صورت میں آپ میری طرف سے معذور ہوں گے“ (قَالَ إِنْ سَاٴَلْتُکَ عَنْ شَیْءٍ بَعْدَھَا فَلَاتُصَاحِبْنِی قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّی عُذْرًا) ۔
یہ جملہ حضرت موسیٰ(ع) کی انصاف پسندی، بلند نظری اور عالی ظرفی کی حکایت کرتا ہے اور نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک حقیقت کے سامنے سرجھکادینے والے تھے اگر چہ وہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو ۔
دوسرے لفظوں میں ۔ تین بارکی آزمائش سے یہ واضح ہوجائے گا کہ ان دونوں کی ماموریت الگ الگ ہے اور اس کا نباہ نہیں ہوسکتا ۔
اس گفتگو اور نئے معاہدے کے بعد ”موسیٰ(ع) اپنے استاد کے ساتھ چل پڑے ۔ چلتے چلتے وہ ایک بستی میں پہنچے ۔انھوں نے اس بستی والوں سے کھانا مانگا لیکن بستی والوں نے انھیں مہمان بنانے سے انکار کردیا “ (فَانطَلَقَا حَتَّی إِذَا اٴَتَیَا اٴَھْلَ قَرْیَةٍ اسْتَطْعَمَا اٴَھْلَھَا فَاٴَبَوْا اٴَنْ یُضَیِّفُوھُمَا) ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت موسیٰ(ع) اور حضرت خضر(ع) کوئی ایسے افراد نہ تھے کہ اس بستی کے لوگوں پر بوجھ بننا چاہتے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا زاد و توشہ راستے میں کہیں دے بیٹھے تھے یا پھر ختم ہوگیا تھا ۔ لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ بستی والوں کے مہمان ہوجائیں (یہ احتمال بھی ہے کہ اس عالم نے جان بوجھ کر لوگوں سے ایسا کہا ہو تاکہ حضرت موسیٰ(ع) کو ایک اور درس دیا جاسکے) ۔
اس نکتے کی یاد ہانی بھی ضروری ہے کہ ”قریة“ قرآن کی زبا ن میں ایک عام مفہوم رکھتا ہے اور ہر قسم کے شہر اور آبادی کے معنی میں آیا ہے لیکن یہاں خصوصیت سے شہر مراد ہے کیونکہ چند آیات کے بعد اس کے لیے لفظ ”المدینہ“ آیا ہے ۔
بہر حال مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ یہ شہر کو نسا تھا اور کہاں واقع تھا ۔ ابنِ عباس سے منقول ہے کہ یہ شہر ”انطاکیہ“تھا ۔(۱)
بعض نے کہا ہے کہ یہاں ”ایلہ“شہر مراد ہے جو کہ آج کل ”ایلات“نام کی مشہور بندرگاہ ہے اور بحیرہ احمر کے کنارے خلیج عقبہ کے نزدیک واقع ہے ۔
بعض دوسروں کا نظریہ ہے کہ اس سے ”ناصرہ“شہر مراد ہے کہ جو آج کل ”ایلات“نام کی مشہور بندرگاہ ہے اور بحیرہ احمر کے کنارے خلیج عقبہ کے نزدیک واقع ہے ۔
بعض دوسروں کا نظریہ ہے کہ اس سے ”ناصرہ“شہر مراد ہے کہ جو فلسطین کے شمال میں واقع ہے اور حضرت عیسیٰ(ع) کی جائے پیدائش ہے ۔ مرحوم طبرسی نے اس مقام پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ جو آخری احتمال کی تائید کرتی ہے ۔
مجمع البحرین کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اس سے مراد خلیج عقبہ اور خلیج سویز کا سنگم ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شہر ناصرہ اور بندرگاہ ایلہ اس جگہ سے انطاکیہ کی نسبت زیادہ قریب ہیں ۔
بہر صورت جو کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے استاد کے ساتھ اس شہر میں پیش آیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کے رہنے والے بہت نجیل اور کم ظرف لوگ تھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس شہر والوں کے بارے میں ایک حدیث منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
”کانوا اہل قریة لئام“
وہ کمینے اور کم ظرف لوگ تھے ۔(2)
قرآن کہتا ہے: اس کے باوجود انھوں نے اس شہر میں ایک گرتی ہوئی دیوار دیکھی تو اس عالم نے اس کی مرمت شروع کردی اور اسے کھڑا کردیا (فَوَجَدَا فِیھَا جِدَارًا یُرِیدُ اٴَنْ یَنقَضَّ فَاٴَقَامَہُ) ۔(3)
حضرت موسیٰ(ع) اس وقت تھکے ہوئے تھے ۔ انھیں بھوک بھی ستارہی تھی، کوفت الگ تھی ۔ وہ محسوس کررہے تھے، اس آبادی کے ناسمجھ لوگوں نے ان کی اور ان کے استاد کی ہتک کی ہے ۔ دوسری طرف وہ دیکھ رہے تھے، اس بے احترامی کے باوجود حضرت خضر(ع) اس گرتی ہوئی دیوار کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے جیسے ان کے سلوک کی مزدوری دے رہے ہوں ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کم از کم استاد یہ کام اجرت لے کرہی کرتے تاکہ کھانا تو فراہم ہوجاتا ۔
لہٰذا وہ اپنے معاہدے کو پھر بھول گئے ۔ انھوں نے پھر اعتراض کیا لیکن اب لہجہ پہلے کی نسبت ملائم اور نرم تھا ۔”کہنے لگے:اس کام کی کچھ اجرت ہی لے لیتے“ (قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَیْہِ اٴَجْرًا ) ۔
در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ سوچ رہے تھے کہ یہ عدل تو نہیں کہ انسان ان لوگوں سے ایثار کا سلوک کرے کہ جو اس قدر و فرو مایہ اور کم ظرف ہوں ۔ دوسرے لفظوں میں نیکی اچھی چیز ہے مگر جب بر محل ہو ۔ یہ ٹھیک ہے کہ برائی کے جواب میں نیکی کرنامردان خدا کا طریقہ ہے لیکن وہاں کہ جہاں بروں کے لیے برائی کی تشویق کا باعث نہ ہو ۔(یعنی وہ”شرافت خور“نہ ہو) ۔
اس مواقع پر اس عالم بزرگوار نے حضرت موسی(ع) سے آخری بات کہی کیونکہ گزشتہ تمام واقعات کی بناء پر انھیں یقین ہو گیا تھا کہ موسی(ع) ان کے کاموں کو برداشت نہیں کرسکتے لہٰذا فرمایا: ”لو اب تمھارے اور میرے در میان جدائی کا وقت آگیا ہے ۔ جلد میں تمھیں ان امور کے اسرار سے آگاہ کروں گا کہ جن پر تم صبر نہ کرسکے“ (َقَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِی وَبَیْنِکَ سَاٴُنَبِّئُکَ بِتَاٴْوِیلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا) ۔
حضرت موسی(ع) نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ گزشتہ واقعے میں یہی بات وہ خود تجویز کر چکے تھے یعنی خود حضرت موسی(ع) پر یہ حقیقت ثابت ہوچکی تھی کہ ان کا نباہ نہیں ہوسکتا ۔ لیکن پھر بھی جدائی کی خبر موسی(ع) کے دل پر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگی ۔ ایسے استاد سے جدائی کہ جس کا سینہ مخزن اسرار ہو، جس کی ہمراہی باعث برکت ہو اور جس کی ہر بات ایک درس ہو، جس کا طرز عمل الہام بخش ہو، جس کی پیشانی سے نور خدا ضوفشان ہو اور جس کا دل علم الٰہی کا گنجینہ ہو ۔ ایسے رہبر سے جدائی کا باعث رنج و غم تھی ۔لیکن یہ ایک ایسی تلخ حقیقت تھی جو موسی(ع) کو بہر حال قبول کرنا تھی ۔
مشہور مفسر ابوالفتوح رازی کہتے ہیں کہ ایک روایت ہے:
لوگوں نے حضرت موسی(ع) سے پوچھا: آپ کی زندگی میں سب سے بڑی مشکل کونسی تھی؟
حضرت موسی(ع) نے کہا: میں نے بہت سختیاں جھیلی ہیں (فرعون کے دور کی سختیاں اور پھر بھی بنی اسرائیل کے دور کی مشکلات کی طرف اشارہ ہے) لیکن کسی مشکل اور رنج نے میرے دل کو اتنا رنجور نہیںکیا جتنا حضرت خضر(ع) سے جدائی کی خبر نے ۔
”تَاٴْوِیلِ“’ ’اول“( بروزن ”قول“) کے مادہ سے کسی چیز کو لوٹا نے کے معنی میں ہے ۔ لہٰذا ہر کام یا بات کو اس کے اصلی ہدف کی طرف لوٹا دیئے جانے کو تاویل کہتے ہیں اور خواب کی تعبیر کو بھی اسی لیے تاویل کہتے ہیں (جیسا کہ سورہٴ یوسف کی آیہ۱۰۰ میں آیا ہے):
<ھٰذَا تَاٴْوِیلُ رُؤْیَای

 



۱۔ ”انطاکیہ“ شام کے قدیم شہروں میں سے ہے ۔ اس کا فاصلہ حلب سے ۹۶ کلومیٹر ہے اور اسکندروں سے ۵۹ کلومیٹر ہے ۔ یہ علاقہ اناج کی پیداوار کے لیے مشہور ہے ۔ سویدتیہ بندرگاہ اسی علاقے میں ہے اور انطاکیہ سے ۲۷ کلومیٹر دور ہے (دائرہ المعارف فرید و جدی جلد ۱ ص ۸۳۵) ۔
2۔ تفسیر ابوالفتوح رازی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
3۔ مزید توضیح کے لیے جلد۲ تفسیر نمونہ میں سورہ آل عمران کی آیہ ۷ کے ذیل میں رجوع کریں ۔