داستان اصحاب کہف کی تفصیل
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ۱۳وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَٰهًا ۖ لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا ۱۴هَٰؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً ۖ لَوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ ۖ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۱۵وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرْفَقًا ۱۶
ہم آپ کو ان کے واقعات بالکل سچے سچے بتارہے ہیں-یہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا. اوران کے دلوں کو مطمئن کردیا تھا اس وقت جب یہ سب یہ کہہ کر اٹھے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ہم اس کے علاوہ کسی خدا کو نہ پکاریں گے کہ اس طرح ہم بے عقلی کی بات کے قائل ہوجائیں گے. یہ ہماری قوم ہے جس نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا اختیار کرلئے ہیں آخر یہ لوگ ان خداؤں کے لئے کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ...._ پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو پروردگار پر افترا کرے اور اس کے خلاف الزام لگائے. اور جب تم نے ان سے اور خدا کے علاوہ ان کے تمام معبودوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے تو اب غارمیں پناہ لے لو تمہارا پروردگار تمہارے لئے اپنی رحمت کا دامن پھیلادے گا اور اپنے حکم سے آسانیوں کا سامان فراہم کردے گا.
داستان اصحاب کہف کی تفصیل
جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اجمالی طور پر واقعہ بیان کرنے کے بعد چودہ آیتوں میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ گفتگو کا آغاز یوں کیا گیا ہے: ان کی داستان، جیسا کہ کہا ہے، ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں (نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاٴَھُمْ بِالْحَقِّ)۔
ہم اس طرح سے واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی فضول بات، بے بنیاد چیزوں اور غلط باتوں سے پاک ہوگا ۔
وہ چند جوانمرد تھے کہ جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت اور بڑھادی تھی (إِنَّھُمْ فِتْیَةٌ آمَنُوا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنَاھُمْ ھُدًی)۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ”فتیہ“ ”فتی“ کی جمع ہے کہ جونوخیز وسرشار جوان کے معنی میں ہے لیکن چونکہ جوانی میں انسان کا بدن قوی ہوتا ہے اس کے جذبات میں جوش وخروش ہوتا ہے ۔ روحانی اعتبار سے دل نورِ حق قبول کرنے اور محبت، سخاوت اور عفو ودرگزر کے جذبوں کے لئے زیادہ آمادہ ہوتا ہے لہٰذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ”فتی“ اور ”فتوت“ اگر بڑی عمر والوں کے لئے بولا جائے تو مجموعی طور پر ان صفات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے لفظ ”جوانمردی“ اور ”فتوت“ فارسی زبان میں بھی انھیں مفاہیم میں استعمال ہوتے ہیں ۔
آیات قران سے اجمالی طور پر اور تاریخ سے تفصیلی طور پر یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اصحابِ کہف جس دَور اور ماحول میں رہتے تھے اس میں کفر وبت پرستی کا دَور تھا، ایک ظالم حکومت کہ جو عام طور پر شرک، کفر، جہالت، عارت گری اور ظلم کی محافظ تھی لوگوں کے سروں پر مسلط تھی، لیکن یہ جوانمرد کہ جو ہوش و صداقت کے حامل تھے آخرکار اس دن کی خرابی کو جان گئے ۔ انھوں نے اس کے خلاف قیام کا مصمم ارادہ کرلیا اور فیصلہ کیا کہ اگر اس دین کے خاتمے کی طاقت نہ ہوئی تو ہجرت کرجائیں گے ۔ اسی لئے گزشتہ بحث کے بعد قرآن کہتا ہے: جب انھوں نے قیام کیا اور کہا کہ ہمارا رب آسمان وزمین کا پروردگار ہے، ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا (وَرَبَطْنَا عَلیٰ قُلُوبِھِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ)۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس کے علاوہ کسی معبود کی ہرگز پرستش نہیں کریں گے (لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِہِ إِلَھًا)۔ اگر ہم ایسی بات کریں اور اس کے علاوہ کسی کو معبود سمجھیں تو ہم نے بیہودہ اور حق سے دُور بات کہی ( لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا)۔
”رَبَطْنَا عَلیٰ قُلُوبِھِمْ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ان کے دل میں توحید کی فکر پیدا ہوئی لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتے تھے، خدا نے ان کے دلوں کو ڈھارس دی اور انھیں یہ طاقت بخشی کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور علی الاعلان صدائے توحید بلند کریں ۔
کیا انھوں نے یہ اعلان سب سے پہلے اس دَور کے ظالم بادشاہ دقیانوس کے سامنے کیا یا عام لوگوں کے سامنے یا دونوں کے سامنے یا آپس میں ایک دوسرے کے سامنے؟ یہ بات صحیح طور پر واضح نہیں ہے لیکن ”قَامُوا“کی تعبیر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انھوں نے یہ اعلان ظالم بادشاہ کے سامنے کیا ۔
”شطط“ (برورزن ”وسط“) حد سے نکل جانے اور بہت دور چلے جانے کے معنی میں ہے، لہٰذا وہ باتیں کہ جو حق سے بہت دور ہوں انھیں ”شطط“ کہا جاتا ہے اور یہ جو بڑے دریاوٴں کے ساحل کو ”شط“ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پانی سے دُور اور بلند ہوتا ہے ۔
ان با ایمان جوانمردوں واقعاً توحید کے اثبات اور ”اٰلھہ“ کی نفی کے لئے واضح دلیل کا سہارا لیا اوروہ یہ کہ ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ آسمان وزمین کا کوئی مالک اور پروردگار ہے کہ وجود نظامِ خلقت جس کے وجود کی دلیل ہے اور ہم بھی اس عالمِ ہستی کا ایک حصّہ ہیں لہٰذا ہمارا پروردگار بھی وہی آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے ۔
اس کے بعد وہ ایک اور دلیل سے متوسل ہوئے اور وہ یہ کہ ”ہماری اس قوم نے خدا کے علاوہ معبود بنا رکھے ہیں“ (ھٰؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ آلِھَةً) تو کیا دلیل وبرہان کے بغیر بھی اعتقاد رکھا جاسکتا ہے، ”وہ ان کی الوہیت کے بارے میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے“ (لَوْلَایَاٴْتُونَ عَلَیْھِمْ بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ)۔ کیا تصور، خیال یا اندھی تقلید کی بناء پر یہ ایسا عقیدہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟ یہ کیسا کھلم کھلا اور عظیم انحراف ہے؟ ”اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے“ (فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا)
یہ افتراء اپنے اوپر بھی ظلم ہے اور معاشرے پر بھی اپنے اوپر اس طرح کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح بدبختی ارور تباہی کے سپرد کردیتا ہے اور معاشرے پر اس طرح کہ یہی عقیدہ وہ اس میں پیش کرتا ہے اور اسے بھی انحراف کی طرف کھینچتا ہے اور یہ ساحتِ اقدس پروردگار میں بھی ظلم ہے اور اس کے مقامِ بزرگ کی اہانت ہے ۔
ان توحید پرست جواں مَردوں نے بہت کوشش کی کہ لوگوں کے دلوں سے شرک کا زنگ اتر جائے اور ان کے دلوں میں توحید کی کونپل پھوٹ ڑے لیکن وہاں تو بتوں اور بُت پرستی کا ایسا شور تھا اور ظالم بادشاہ نغمہٴ توحید ان کے حلق میں ہی اٹک کر رہ گیا تھا ۔
لہٰذا انھوں نے مجبوراً اپنی نجات کے لئے اور بہتر ماحول کی تلاش کے لئے ہجرت کا عزم کیا ۔ لہٰذا باہمی مشورے ہونے لگے کہ کہا جائیں، کس طرف کو کوچ کریں، آپس میں کہنے لگے: ”جب اس بت پرست قوم سے کنارہ کشی اختیار کرلو اور خدا کو چھوڑکر جنھیں یہ پوچتے ہیں ان سے الگ ہوجاوٴ اور اپنا حساب کتاب ان سے جدا کرلو تو غار میں جا پناہ لو“ (وَإِذْ اعْتَزَلْتُمُوھُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ إِلاَّ اللهَ فَاٴْوُوا إِلَی الْکَھْفِ)۔ تاکہ تمھارا پروردگار تم پر اپنی رحمت کا سایہ کردے اور اس مشکل سے نکال کر تمھیں نجات کی راہ پر ڈال دے (یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ رَحْمَتِہِ وَیُھَیِّءْ لَکُمْ مِنْ اٴَمْرِکُمْ مِرفَقًا)
”یُھَیِّءْ“ ”تھیہ“ کے مادہ سے تیار کرنے کے معنی میں ہے ۔
اور ”مرفق“ اس چیز کو کہتے ہیں جو آرام وراحت کا ذریعہ بنے ۔ لہٰذا ”یُھَیِّءْ لَکُمْ مِنْ اٴَمْرِکُمْ مِرفَقًا“ کا معنی ہے ”خدا تمھارے لئے راحت وآرام کا ذیعہ فراہم کردے“۔
بعید نہیں کہ ”نشر رحمة“ گزشتہ جملے میں الله کے الطافِ معنوی کی طرف اشارہ ہو جبکہ دوسرا جملہ جسمانی ومادی نجات وآرام کی طرف اشارہ ہو ۔