شان نزول
أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا ۹إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ۱۰فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ۱۱ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ۱۲
کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ کہف و رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز نشانی تھے. جبکہ کچھ جوانوں نے غار میں پناہ لی اور یہ دعا کی کہ پروردگار ہم کو اپنی رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے کام میں کامیابی کا سامان فراہم کردے. تو ہم نے غار میں ان کے کانوں پر چند برسوں کے لئے پردے ڈال دیئے. پھر ہم نے انہیں دوبارہ اٹھایا تاکہ یہ دیکھیں کہ دونوں گروہوں میں اپنے ٹھہرنے کی مدّت کسے زیادہ معلوم ہے.
مندرجہ بالا آیات کی مفسرین نے ایک شانِ نزول نقل کی ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریش کے سرداروں نے انپے دوساتھی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی دعوت کی تحقیق کے لیے علماء یہود کے پاس مدینہ بھیجے ۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا گزشتہ کتب میں اس سلسلے میں کوئی چیز ملتی ہے ۔
انہوں نے مدینہ پہنچ کر علماء یہود سے رابطہ کیا ۔ ان سے ملے اور قریش کی بات بیان کی، تو یہودی علماء نے کہا: تم محمّد سے تین مسائل کے بارے میں سوال کرو ۔ اگر اس نے سب کا کافی و دانی جواب دے دیا تو وہ خدا کی طرف سے رسول ہے ۔
(بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ اگر محمّد نے دوسوالوں کا جواب کافی و دانی اور ایک سوال کا جواب اجمالی دیا تو پھر وہ رسول ہے)۔
انہوں نے بات جاری رکھی: سب سے پہلے پوچھنا کہ بہت مدت پہلے جو چند جوان اپنی قوم سے جدا ہوگئے تھے ۔وہ کون تھے؟ کیونکہ ان کی داستان اور جو ان کے ساتھ گزی بہت عجیب و غریب ہے ۔
علماء یہود کہنے لگے: پھر سوال کرنا کہ وہ کون ہے جس نے پوری زمنی کا چکر لگایا اور زمین کے مشرق و مغرب تک جا پہنچا ۔ اس کا واقعہ کس طرح ہے ۔
انہوں نے کہا: نیز یہ بھی پوچھنا کہ روح کی حقیقت کیا ہے؟
قریش کے نمائندے واپس مکہ سرداران قریش کے پاس پہنچ گئے اور کہا : ہم نے محمّد کے سچی اور جھوٹ کی پہنچان کا معیار پالیا ہے ۔
پھر انہوں نے اپنا سارا واقعہ سنایا ۔
اس کے بعد وہ رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے او ر اپنے سوالات آپ کی خدمت میں پیش کیے ۔
رسول اللہ نے فرمایا: میں تمھیں کل جواب دوں گا ۔
لیکن آپ(علیه السلام) نے انشاء اللہ نہ کہ۔ پندرہ دن گزرگئے لیکن اللہ کی طرف سے رسول اللہ پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی اور جبرائیل آپ(علیه السلام) کے پاس نہ آئے ۔ اس پر اہلِ مکہ پر اپیگنڈا کرنے لگے اور ہر طرح طرح کی غلط باتیں بنانے لگے ۔
رسول اللہ پر یہ بات بہت گراں گزری۔ آخر کار جبرائیل آئے اور خدا کی طرف سے سورہ کہف لائے ۔ اس میں ان جوانوں کی داستان بھی تھی اس سیاحِ عالم کا واقعہ بھی تھا ۔ علاوہ ازیں آپ پر یہ آیہ ”ویسئلونک عن الروح“بھی نازل ہوئی۔
آنحضرت نے جبرئیل(علیه السلام) سے پوچھا: اتنی تاخیر کیوں کی تھی؟
انھوں نے کہا: مَیں آپ کے رب کے حکم کے علاوہ نازل نہیں ہوسکتا، مجھے اجازت نہیں دی گئی۔
یاددہانی ضروری ہے کہ مذکورہ تین سوالوں میں سے دو کے جواب اسی سورہ میں آئے ہیں لیکن روح سے متعلق آیت سورہٴ بنی اسرائیل میں گزر چکی ہے ۔ اور ایسی مثالی قران میں اور بھی ہیں کہ ایک آیت ایک خاص مطلب کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور رسول الله کے حکم پر اسے خاص سورت میں خاص مقام پر جگہ دی گئی۔