Tafseer e Namoona

Topic

											

									  معاد کیونکر ممکن ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 98-100

: الاسراء

ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا ۹۸أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا ۹۹قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا ۱۰۰

Translation

یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کا انکار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ہم ہڈیاں اور مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے تو کیا دوبارہ ازسر هنو پھر پیدا کئے جائیں گے. کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس کا جیسا دوسرا بھی پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس نے ان کے لئے ایک مدّت مقرر کردی ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے مگر ظالموں نے کفر کے علاوہ ہر چیز سے انکار کردیا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ میرے پروردگار کے خزانوں کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے کے خوف سے سب روک لیتے اور انسان تو تنگ دل ہی واقع ہوا ہے.

Tafseer

									معاد کیونکر ممکن ہے؟

گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے کہ دوسرے جہان میں کیسا برا انجام مجرموں کے انتظار میں ہے، ایسا انجام کہ جو ہر عقلمند انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے ۔زیر نظر آیات میں اس کی علت کو ایک اور حوالے سے واضح کیا گیا ہے ۔
ارشا ہوتا ہے: یہ ان کی سزا ہے، کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا جس وقت ہم بوسیدہ ہڈیوں میں بدل چکے ہوں گے اور ہمارا جسم پراگندہ مٹی کی صورت اختیار کرچکا ہوگا کیا اس وقت ہماری خلقت نو ہوگی ( ذٰلِکَ جَزَاؤُھُمْ بِاٴَنَّھُمْ کَفَرُوا بِآیَاتِنَا وَقَالُوا اٴَئِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا)۔
جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے”رفات“ گھاس کے تنکوں کو کہتے ہیں جو ٹوٹتے نہیں اور بکھر جاتے ہیں ۔
بنا کہے واضح ہے کہ تہ زمین پہلے انسان بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر خاک میں بدل جاتا ہے اور خاک کے یہ ذرے بھی بکھر جاتے ہیں ۔
جو لوگ معاد جسمانی کے مسئلہ پر تعجب کرتے ہیں یا اسے ناممکن سمجھتے ہیں قرآن حکیم نے فوراً ہی انہیں جواب دیا ہے: کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ ان کی نظیر بھی پیدا کرسکتا ہے(اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ قَادِرٌ عَلیٰ اٴَنْ یَخْلُقَ مِثْلَھُمْ )۔
لیکن انہیں جلدی نہیں کرنا چاہئے، قیامت اگر چہ دیر سے آئے مگر آکے رہے گی۔خدا نے ان کے لیے ایک قطعی مدت مقرر کی ہے او رجب تک وہ وقت معین نہ آجائے قیامت برپا نہیں ہوگی(وَجَعَلَ لَھُمْ اٴَجَلًا لَارَیْبَ فِیہ)۔
لیکن اہل ستم یہ باتیں سننے کے باوجود اپنی کج روی پر باقی رہتے ہیں اور کفرو انکار کے سوا کوئی راستہ اختیار نہیں کرتے(فَاٴَبَی الظَّالِمُونَ إِلاَّ کُفُورًا)۔
انہیں اصرار تھا کہ رسول کو نوع بشر میں سے نہیں ہونا چاہئے لہٰذا یہ باور کرنے میں انہیں کچھ حسد او رکم ظرفی مانع تھی کہ ہوسکتا ہے خدا یہ نعمت کسی انسان کو عطا کرے، لہٰذا زیر بحث آخر آیت میں فرمایا گیا ہے:ان سے کہہ دو : اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے بھی تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو بھی اپنی تنگ دلی کی وجہ سے تم انہیں روکے رکھتے کہ انہیں خرچ کرنے میں تم تنگ دست نہ ہوجاوٴ(قُلْ لَوْ اٴَنتُمْ تَمْلِکُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّی إِذًا لَاٴَمْسَکْتُمْ خَشْیَةَ الْإِنفَاقِ )۔اور انسان طبعاً بخیل ہے(وَکَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا)۔
”قتور“کا مادہ”قتر“(بروزن”قتل“) ہے ۔ یہ خرچ کرنے میں بخل سے کام لینے کے معنی میں ہے اور ”قتور“ چونکہ مبالغہ کا صیغہ ہے لہٰذا سخت تنگ دلی کا معنی دیتا ہے ۔