Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ کوتاہ فکری اور نامعقول تقاضے

										
																									
								

Ayat No : 90-93

: الاسراء

وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا ۹۰أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ۹۱أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ۹۲أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا ۹۳

Translation

اور ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمارے لئے زمین سے چشمہ نہ جاری کردو. یا تمہارے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں جن کے درمیان تم نہریں جاری کردو. یا ہمارے اوپر اپنے خیال کے مطابق آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرادو یا اللہ اور ملائکہ کو ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردو. یا تمہارے پاس سونے کا کوئی مکان ہو یا تم آسمان کی بلندی پر چڑھ جاؤ اور اس بلندی پر بھی ہم ایمان نہ لائیں گے جب تک کوئی ایسی کتاب نازل نہ کردو جسے ہم پڑھ لیں آپ کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار بڑا بے نیاز ہے اور میں صرف ایک بشر ہوں جسے رسول بناکر بھیجا گیا ہے.

Tafseer

									۲۔ کوتاہ فکری اور نامعقول تقاضے

ہرشخص اپنی فکر کی حد تک بات کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کی باتیں اس کی سطحِ فکر کی غمازہوتی ہیں، وہ لوگ جنہیں مال ومقام کے علاوہ کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہر شخص اسی فکر میں غلطاں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ قریش کے کوتاہ فکر سردار بعض اوقات رسولِ اکرم کو مال کی پیش کش کرتے تھے اور کبھی مقام ومنصب کی تاکہ آپ (علیه السلام) اپنی دعوت سے دستبردار ہوجائیں، وہ پیغمبراکرم کی حکیم روح کو اپنی فکر کے محدود پیمانے سے ماپتے تھے ۔
یہاں تک کہ ان کا خیال تھا کہ اگر کسی شخص کی کوشش مال ومقام کے لئے نہیں تو وہ پاگل ہے اور اس کے علاوہ کوئی چھوتھی چیز نہیں ہے ۔
لہٰذا انہوں نے کہا: کہ اگر نہ تُو مال چاہتا ہے اور نہ مقام تو پھر تیسری بات مان لے اور ہمیں اجازت دے کہ تیرے لئے طبیب لے آئیں ۔
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو بہت چھوٹے سے کمرے میں قید ہو، اس نے کُھلے وسیع آسمان، چمکتے سورج، پہاڑوں، دریاؤں اور صحراؤں کو نہ دیکھا ہو اور اسے عالمِ ہستی کی عظمت کا اندازہ نہ ہو ۔
وہ رسول اللہ کی عظیم اور ناپید کنار روح کو اپنے پیمانوں سے ماپنا چاہتے تھے ۔
ان سب باتوں سے قطعِ نظر وہ رسول اللہ سے کونسی ایسی چیز کی خواہش کرتے تھے کہ جو اسلام میں نہ تھی، وہ سرسبز زمینوں ، پانی سے لبریز چشموں، کھجور اور انگور کے باغوں اور مزین وخوشحال گھروں کی فرمائش کرتے تھے اور ہم جانتے ہیں اپنی پیش رفت کے پروگرام میں اسلام ہر چیز سے مالا مال تمدن کا حامل تھا، ایسا تمدن کہ جس میں ہر قسم کی اقتصادی ترقی کا امکان تھا، اور ہم نے دیکھا کہ مسلمان اسی قرآن اور پروگرام کے سائے میں اس سے کہیں آگے بڑھ گئے کہ جس کی مشرکینِ عرب اپنی ناقص فکر سے تمنا کرتے ۔
اگر ان کی آنکھ حقیقت میں ہوتی تو وہ اس دین میں روحانی کمال بھی دیکھتے، مادی ارتقاء بھی ۔کیونکہ ہر دو کے لئے سعادت کا ضامن ہے ۔
ہم ان بچکانہ یا احمقانہ تقاضوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ ۔وہ کبھی کہتے کہ ہمارے لئے خدا کا عذاب لے آؤ اور آسمانی پتھر ہمارے سروں پر برساؤ، یا یہ کہ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جاؤ اور تجھ پر قربان، وہاں سے کوئی خط ہمارے لئے لے آؤ یا یہ کہ خدا اور فرشتوں کو ٹولیوں میں ہمارے سامنے لے آؤیا یہ کہ خدا اور فرشتوں کو ٹولیوں میں ہمارے سامنے لے آؤ۔
یہاں تک کہ یہ نہیں کہا کہ ہمیں ان کے پاس لے جا ۔
یہ انسان عجیب جہالت، غرور اور تکبر کے مظاہرے کرتا ہے ۔