۱۔ بہانہ تراشیوں کا جواب
وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا ۹۰أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ۹۱أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ۹۲أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا ۹۳
اور ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمارے لئے زمین سے چشمہ نہ جاری کردو. یا تمہارے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں جن کے درمیان تم نہریں جاری کردو. یا ہمارے اوپر اپنے خیال کے مطابق آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرادو یا اللہ اور ملائکہ کو ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردو. یا تمہارے پاس سونے کا کوئی مکان ہو یا تم آسمان کی بلندی پر چڑھ جاؤ اور اس بلندی پر بھی ہم ایمان نہ لائیں گے جب تک کوئی ایسی کتاب نازل نہ کردو جسے ہم پڑھ لیں آپ کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار بڑا بے نیاز ہے اور میں صرف ایک بشر ہوں جسے رسول بناکر بھیجا گیا ہے.
۱۔ بہانہ تراشیوں کا جواب
جیسا کہ شانِ نزول کے علاوہ خود مندرجہ بالا آیات کا لب ولہجہ گواہی دیتا ہے کہ مشرکین کے ان عجیب وغریب تقاضوں کی بنیاد حق جوئی نہ تھی بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ بُت پرستی اور شرک کا مذہب باقی رہ جائے کیونکہ اس مذہب سے مکہ کے رؤسا کی قدرت وابستہ تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح رسول اللہ کو راہِ توحید کا سفر جاری رکھنے سے روک سکیں ۔
لیکن رسول اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم نے انہیں دو منطقی ،واضح اور مختصر جوابات دئےے ۔
پہلا یہ کہ میرا پروردگار ان امور سے منزہ ہے، وہ اس سے منزہ ہے کہ کبھی اس کا حکم مانے اور کبھی اِس کا ، وہ فضول مہمل اور بے بنیاد تقاضوں کے سامنے سر جھکانے سے منزہ ہے(سبحان ربی)۔
دوسرا یہ کہ اس سے قطع ۔اصولی طور پر معجزات بھیجنا اس کا کام ہے اور معجزات اسی کے ارادے اور فرمان کے تحت انجام پاتے ہیں، مَیں تو یہاں تک بھی حق نہیں رکھتا کہ ان کا خود تقاضا ہی کروں، وہ جس وقت ضرور سمجھے گا اپے رسول کی دعوت کی صداقت کے لئے جو معجزہ ضروری ہوگا بھیج دے گا (ھل کنت الا بشراً رسولا)۔
یہ صحیح ہے کہ یہ دونوں جواب ایک دوسرے سے مربوط ہیں تاہم دو جواب شمار ہوتے ہیں، ایک یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کام انسان کے بس کا نہیں اور دوسرا انسان کے خدا کا ان من پسند کے معجزات کی خواہش قبول کرنے سے منزہ ہونا ثابت کرتا ہے ۔
اصولی طور پر رسول کوئی معجزہ گھڑنے والا انسان نہیں ہے کہ وہ کسی جگہ بیٹھ جائے اور جو شخص بھی آئے اور اپنی پسند کا کوئی بھی معجزہ طلب کرلے اور یہ پسند نہ ہو تو کوئی دوسری تجویز پیش کردے یعنی خلقت کے قوانین اور سنتیں کھیل تماشہ بن جائیں اور پھر بھی دل چاہے تو معجزہ طلب کرنے والے قبول کر لیں اور نہ چاہیں تو انکار کردیں ۔
نبی کی ذمہ داری ہے کہ معجزے کے ذریعے خدا سے اپنا تعلق ثابت کرے اور جب درکارِ ضرورت کے مطابق معجزہ پیش کردے تو پھر اس ضمن میں اس کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہتی، ممکن ہے وہ نزولِ معجزہ کا وقت بھی نہ بتا سکے، وہ خدا سے صرف اس موقع پر معجزہ کا تقاضا کرتا جب اسے معلوم ہوکہ خدا اس امر پر راضی ہے ۔