Tafseer e Namoona

Topic

											

									  مثل کبھی نہیں لائی جاسکتی

										
																									
								

Ayat No : 88-89

: الاسراء

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ۸۸وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ۸۹

Translation

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں. اور ہم نے اس قرآن میں ساری مثالیں اُلٹ پلٹ کر بیان کردی ہیں لیکن اس کے بعد پھر بھی اکثر لوگوں نے کفر کے علاوہ ہر بات سے انکار کردیا ہے.

Tafseer

									مثل کبھی نہیں لائی جاسکتی
 


قبل اور بعد کی آیات قرآن کے بارے میں گفتگو کررہی ہیں جب کہ زیرِ بحث آیات میں صراحت کے ساتھ اعجازِ قرآن کے متعلق بات کرہی ہیں، اس لحاظ سے زیرِ نظر آیات کا گزشتہ اور اور بعد کی اایست سے ربط محتاجِ بیان نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں آئندہ آیات میں مشرکین کی بہانہ تراشیوں کا ذکر تفصیل کی کیا گیا ہے کہ وہ طرح طرح کے من پسند معجزات کا تقاضا کرتے تھے، اس حوالے سے زیرِ نظر آیات آئندہ کی بحث کے لئے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان بہانہ تراش لوگوں پر واضح کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّم کی حقانیت کا اعلی ترین، زندہ اور جاوداں معجزہ یہی قرآن ہے کہ جو تاریخ میں ہمیشہ چمکتا رہے گا اور اس کے ہوتے ہوئے بہانہ سازیاں بے جاں ہیں ۔۔
بعض نے ان آیات کا تعلق گزشتہ آیات سے اس پہلو سے بیان کیا ہے کہ روح کے اسرار آمیز ہونے کا موازنہ قرآن کے اسرار آمیز ہونے سے کیا گیاہے(۱)، البتہ جس ربط کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ واضح نظر آتا ہے ۔
بہرحال اللہ تعالیٰ یہاں روئے سخن اپنے رسول کی جانب کرتے ہوئے کہتا ہے:ان سے کہو : اگرتمام انسان اور جِن مل کر قرآن کی مثل لانا چاہیں تو بھی وہ اس جیسا کلام لانے پر قادر نہیں ہوسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں( قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اٴَنْ یَاٴْتُوا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لَایَاٴْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیرًا)۔
یہ آیت پوری صراحت کے ساتھ پورے عالم کو چیلینج کرتی ہے ، سب لوگ چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے ، عرب ہوں یا غیر عرب حتی کہ انسان ہو یا غیر انسان ذوی العقول موجودات، علماء ،فلاسفہ، ادباء، مورخین، نوابغ یا غیر نوابغ، غرض یہ کہ قرآن بلا استثنا سب کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر تمہارا خیال ہے کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے اور انسانی دماغ کی ایجاد ہے تو تم بھی انسان ہو، اس کی مثال لے آؤ اور اگر مشترکہ کاوش کے باوجود اپنے آپ کو ناتواں پاؤ تو یہ اعجازِ قرآن کی بہترین دلیل ہے ۔
عقائد اور کلام کے علماء مقابلے کی اس دعوت کو ”تحدی“(چیلنج)کے نام سے یاد کرتے ہیں، یہ تحدی ہر معجزہ کا ایک رکن ہے، جہاں کہیں اس قسم کی تعبیر آئے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ امر معجزات میں سے ہے ۔

 

 

۱۔ فی ظلال القرآن ،ج۵،ص ۳۵۸، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔