2- ”شاکلة“سے کیا مراد ہے؟
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا ۸۳قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا ۸۴
اور ہم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ہیں تو وہ پہلو بچا کر کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب تکلیف ہوتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے تو تمہارا پروردگار بھی خوب جانتا ہے کہ کون سب سے زیادہ سیدھے راستہ پر ہے.
”شاکلة“سے کیا مراد ہے؟
”شاکلة“ در اصل”شکل“ کے مادہ سے جانور کو لگام دینے کے معنی میں ہے ”شکال“ خود مہار کو کہتے ہیں اور چونکہ ہر انسان کو اس کی طبیعت ، جذبات اور عادتیں کسی خاص روےّے میں مقید کرددیتے ہیں لہٰذا اسے ”شاکلة“ کہتے ہیں، سوالات، ضروریات اور تمام مسائل کے لئے یہ جو لفظ” اشکال“ بولا جاتا ہے یہ بھی اس لحاظ سے ہے کہ یہ ایک لحاظ سے انسان کو مقید کردیتے ہیں ۔(۱)
اس گفتگو سے ظاہر ہوا کہ”شاکلة“ کا مفہوم انسان کی ذاتی طبعیت کے لئے مخصوص نہیں، اسی لئے علامہ طبرسی مرحوم مجمع البیان میں اس کے دو معانی ذکر کئے ہیں:
۱۔ طبیعت وخلقت۔
۲۔ طریقہ، مذہب اور سنت۔
کیونکہ ان میں سے ہر ایک انسان کو عمل کے لحاظ سے کسی طرح مقید کرتا ہے ۔
یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ کس قدر اشتباہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں جو زیرِ بحث آیت کو صفاتِ ذات کی انسان پر حکومت اور جبر واکراہ کی دلیل خیال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ تربیت وتزکیہ پر اعتماد نہیں رکھتے ۔
یہ طرزِ فکر مختلف سیاسی، معاشرتی اور نفسیاتی اسباب کے باعث پیدا ہوئی ہے ،اس سلسلے میں ہم نے جبر واختیارکی بحثوں میں وضاحت کی ہے ، بہت سی قوموں ادب میں یہ فکر غلاب نظر آتی ہے، لوگ اپنی کوتاہ اور غلط باتوں کی توجیہ کے لئے اس کا سہارا لیتے ہیں، یہ وہ خطرناک ترین نظریہ ہے جو معاشرے کو ذلت وخواری اور پسماندگی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے اور سالہا سال یہ صدیوں تک کے لئے اسے اس پسماندگی کے گڑھے میں ڈالے رکھتا ہے ۔
ذیل کے اشعار اس طرزِ فکر کی کامل نمائندگی کرتے ہیں
درختی کہ تلخ است اندر سرشت گرش بر نشانی بہ باغ بہشت
واز جوی خلدش بہ ہنگام آب بہ بیخ انگبین ریزی وشہدناب
سرانجام گوہر بہ کار آورد ہمان میوہ تلخۺ بار آورد
یعنی۔
جس درخت کی سرشت میں ہی تلخی ہے اگر اسے جنت میں بھی لگا دیا جائے ۔
اور جنت سے اسے پانی دیتے وقت اس میں شہد ملا دیا جائے ۔
لیکن آخر کار اس کی سرشتاپنا کام دکھائے گی اور وہ جو پھل دے گا وہ کڑوا ہی ہوگا ۔
اگر تربیتی اور اجتماعی مسائل کی بنیاد بنیاد واقعاً اس منطق کو قرار دیا جائے تو تعلیم وتربیت کو لازمی طور پر فضول ماننا پڑے گا ۔
اسی بناء پر ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلکِ جبر ہمیشہ استعماری حکومتوں کے ہاتھ میں ایک دستاویز اور حربے کے طور پر رہا ہے تاکہ وہ اس ذریعے سے کسی انقلابی تحریک کو روک سکیں اور جواں مرد انقلابیوںبیڑیاں پہنا سکیں ۔
مشہور جملہ ہے:
الجبر والتشبیہ امویان والعدل والتوحید علویان
عقیدہ جبر اور خدا کو موجودات کے ساتھ تشبیہ دینا بنی امیہ کے عقائد میں سے ہے اور عدل وتوحید کا عقیدہ مکتبِ علوی کی بنیاد ہے ۔
یہ جملہ بھی اس حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے ”شاکلة“ ہر گز ذاتی تربیت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی عادت، طریقہ، روش اور مذہب انسان کی زندگی کو ایک جہت اور سمت دے دے اسے ”شاکلة“ کہتے ہیں، اسی بنا پر عادات وسنن جنہیں اختیاری عمل کے تکرار سے انسان اپنا لیتا ہے اور اسی طرح عقائد ونظریات جو استدلال یا تاتعصب کی وجہ سے قبول کرلیتا ہے یہ سب انسانی زندگی پر گہرا ثر مرتب کرتے ہیں اور انہیں ”شاکلة“ کہا جاتا ہے ۔
اصولی طور پر انسانی ملکات وجذبات عموماًاختیاری ہوتے ہیں کیونکہ جب انسان کسی عمل کا رتکرار کرتا ہے تو اس کی پہلی اسٹیج کو ”حالت“ کہتے ہیں، دوسری کو ”عادت“ اور تیسری کو”ملکہ“یہ عمل آہستہ آہستہ تدریجی طورپر ہوتا ہے ، یہی ملکات ہیں جو انسان کے اعمال کو ایک خاص شکل دیتے ہیںاور اس کی راہِ حیات کو معین کرتے ہیں، حالانکہ یہ ملکات اختیاری عوامل سے پیدا ہوتے ہیں اور اختیاری عوامل ہی انہیں پروران چڑھاتے ہیں ۔
بعض روایت میں ”شاکلة“ سے ”نیت“ مراد لیا گیا ہے، اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہے، آپ (علیه السلام) فرماتے ہیں:
النیة افضل من العمل الاوان النیة ھی العمل، ثم تلا قولہ عزل جل :
”قل کل یعمل علی شاکلة “ یعنی علی نیتہ۔
نیت عمل سے افضل ہے بلکہ اصلاً نیت ہی عمل ہے ۔
اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
”قل کل یعمل علی شاکلة “۔
اور ساتھ ہی فرمایا:
”شاکلة“ سے مراد نیت ہے ۔(2)
اس تفسیر میں ایک جاذبِ نظر اور عمدہ نکتہ پنہاں ہے اور وہ یہ کہ انسان کی نیت کہ جو اس کے عقائد ونظریات سے ابھرتی ہے اسی سے اس کا عمل جنم لیتا ہے اور اصولاً خود نیت”شاکلة“کی ایک قسم ہے یعنی مقید کرنے والا امر ہے، اسی لئے بعض اوقات نیت ہی کو عمل قرار دیا گیا ہے اور کبھی اسے عمل سے برتر گردانا گیا ہے، کیونکہ بہرحال عمل وہی راستہ اختیارکرتا ہے جو نیت کی روش ہوتی ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا :کیا یہودیوں کی عبادت گاہوں اور نصاریٰ کے گرجوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟
آپ نے فرمایا:ہاں تم ان میں نماز پڑھ سکتے ہو ۔
کسی نے پوچھا: اگر وہ ان میں نماز پڑھ رہے ہوں ہم پھر بھی ان میں نماز پڑھ لیں؟
فرمایا:ہاں ۔ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ اللہ فرماتا ہے:
”قل کل یعمل علی شاکلةفربکم اعلم بمن ھو اھدی سبیلا ۔
اس کے بعد مزید فرمایا:تم اپنے قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھو اور انہیں رہنے دو (وہ جو بھی کررہے ہو ں)۔(3)
۱۔ مفردات ازراغب ، مادہ ”شکل“
2۔ نور الثقلین، ج۲ ص۱۱۴
3۔ نور الثقلین، ج۳ ص۱۱۴