۴۔ کامیابی حق کے لئے اور نابودی باطل کے لئے
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ۷۸وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۷۹وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا ۸۰وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۸۱
آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لئے گواہی کا انتظام کیا گیا ہے. اور رات کے ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں یہ آپ کے لئے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچادے گا. اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچھی طرح سے آبادی میں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور میرے لئے ایک طاقت قرار دے دے جو میری مددگار ثابت ہو. اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے.
۴۔ کامیابی حق کے لئے اور نابودی باطل کے لئے
مندرجہ بالاآیات میں اور اور کُلی اور بنیادی اصول اور خدا کی ایک دائمی سنت کا تذکرہ ہے، یہ وہ اصول اور سنت ہے جو حق کے تمام پیروکاروں کے لئے ولولہ انگیز ہے، وہ یہ ہے کہ آخرکار حق کامیاب اور باطل قطعی طور پر نابود ہونے والا ہے ۔
باطل صولت ودولت کا مظاہرہ کرتا ہے،کرّ وفرو کھاتا ہے، کڑکتا اور گرجتا ہے لیکن اس کی عمر مختصر ہے اور آخر کار نابودی کے کھاٹ اتر جاتا ہے ۔
یا پھر قرآن کے بقول ۔باطل پانی کے اوپر کے جھاگ کی مانند ہے ؛آنکھ مچولی کرتا ہے، شور وغوغا برپا کرتا ہے اور پھر خاموش ہوجاتا ہے اور پانی کہ جو سببِ حیات ہے باقی رہ جاتا ہے ۔قرآنی الفاظ میں:
<فَاٴَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَاءً وَاٴَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاٴَرْضِ (رعد:۱۷)
اس بات کی دلیل خود لفظ”باطل“ میں پنہاں ہے کیونکہ باطل سے مراد ایسی چیز ہے جو عالمِ خلقت کے قوانین سے ہم آہنگ نہیں ہے اور جس کا واقعیت اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، اس کا وجود بناوٹی ، پُر فریب، بے اصل اور بے بنیاد ہے، یہ اندر سے کھوکھلا ہے ، مسلّم ہے جس چیز کی یہ صفات ہوں وہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتی۔
لیکن”حق“ عین واقعیت ہے، راستی ودرستی پر مبنی ہے، اس کی اصل اور بنیاد ہے اس میں گہرائی ہے اوریہ قوانین آفرینش سے ہم آہنگ ہے ۔
اور ایسی چیز کو بہرحال باقی رہنا چاہیئے ۔
حق کے پیروکار ایمان کے ہتھیار سے لیس ہوتے ہیں ، وہ ایفائے عہد کی منطق پر یقین رکھتے ہیں، صدقِ حدیث، فداکاری اور سرفروشی ان کی خصوصیات ہیں، وہ شہادت تک جانبازی دکھاتے رہنے پر آمادہ ہوتے ہیں ، علم وآگاہی کے نور نے ان کا دل روشن کررکھا ہوتا ہے،وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ یہی ان کی کامیابی کا راز ہے ۔
۵۔ آیت”جاء الحق“ اور قیامِ مہدی (علیه السلام)
بعض روایات میں ”جاء الحق وزھق الباطل“ کے جملے کی تفسیر قیامِ حضرت مہدی (علیه السلام) کے حوالے سے کی گئی ہے ۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
خدا کے اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ :
اذا قام القائم ذھبت دولة الباطل۔
جس وقت امامِ قائم قیام کریں گے باطل کی حکومت ختم ہوجائے گی ۔(1)
ایک اور روایت میں :جب امام مہدی پیدا ہوئے تو ان کے بازو پر کندہ تھا :
”جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا“۔(2)
مسلم ہے کہ ان احادیث کا مطلب یہ نہیں کہ آیت کا مفہوم اسی ایک مصداق میں منحصر ہے بلکہ ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قیامِ مہدی اس آیت کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے کہ جب پوری دنیا میں باطل پر حق کو آخری فتح حاصل ہوگی۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں ہے کہ فتح مکہ کے روز آپ مسجدا لحرام میں داخل ہوئے وہاں عرب قبائل کے ۳۶۰بُت، خانہ کعبہ کے گرد رکھے ہوئے تھے، آپ اپنے عصائے مبارک سے ہر ایک کو یکے بعد دیگرے سرنگوں کرتے تھے اور مسلسل فرما رہے تھے:
”جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا“
آگیا حق اور مٹ گیا باطل،باطل کو تو مٹنا ہی تھا ۔
مختصریہ کہ یہ اللہ کا ایک کُلی قانون اور خلقت کا غیر متبدل اصول ہے ، ہر دَور میں اس کا اپنا مصداق ہے، پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّم کے قیام اور شرک وبُت پرستی کے لشکر پر آپ کی کامیابی اس کا ایک روشن رُخ ہے اور اسی طرح عالمی ستمگروں اور جابروں کے خلاف قیام مہدی (علیه السلام) (ارواحنا الفداء) اس کا ایک اور تابناک مصداق ہے ۔
اسی طرح قانونِ الٰہی ہے کہ وہ راہ ِ حق کے راہیوں کو مشکلات میں پُرامید،پُر استقامت رکھتا ہے اور اسلام کے لئے ہماری کاوشوں پر ہمیں نشاط اور قوت بخشتا ہے ۔
۱۔ 1۔و2۔نور الثقلین ،ج ۳،ص ۱۱۲، ۱۱۳