Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۴۔ دل کے اندھے

										
																									
								

Ayat No : 70-72

: الاسراء

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۷۰يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا ۷۱وَمَنْ كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا ۷۲

Translation

اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے. قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامئہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا. اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا.

Tafseer

									۴۔ دل کے اندھے:

مشرکوں اور ظالموں کے بارے میں زیر بحث آیت میں قرآن نے ایک نہایت عمدہ تعبیر استعمال کی ہے اور وہ ہے ”اعمیٰ“(اندھے)۔یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حق کا چہرہ ہر جگہ آشکار ہوتا ہے البتہ چشم بینا کی ضرورت ہے ۔ ایسی آنکھ کہ جو اس وسیع کائنات میں آیات الٰہی کو دیکھ سکے، وہ آنکھ کہ جو صفحاتِ تاریخ میں سے درسِ عبرت کا مطالعہ کرسکے اور ایسی آنکھ کہ جو ظالموں اور جابروں کے انجام کا مشاہدہ کرسکے ۔ خلاصہ یہ کہ ایسی کھلی آنکھ کی ضرورت ہے کہ جو حق کو دیکھ سکے ۔
لیکن جب جہالت، غرور، تعصب، ہٹ دھرمی، شہوت اور ہوا و ہوس کے موٹے موٹے پردے انسان کی آنکھ کے سامنے پڑجائیں تو پھر وہ دیکھنے کے قابل نہیں رہتی۔ جمالِ حق تو حجاب میں نہیں ہوتا مگر ایسی آنکھ اس کے مشاہدے سے عاجز ہوتی ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”من لم یدلہ خلق السمٰوات والارض، واختلاف اللّیل والنہار، و دوران الفلک والشمس والقمر والاٰیات العجیبات علیٰ ان وراء ذٰلک امر اعظم منہ، فہو فی الاٰخرة اعمیٰ واضل سبیلا“۔
جس شخص کو زمین و آسمان کی خلقت، روز و شب کی آمد و شد، سورج چاند ستاروں کی گردش اور اس کی عجیب و غریب نشانیاں اس عالم کے ماوراء چھپی ہوئی عظیم حقیقت سے آگاہ نہ کریں، وہ آخرت میں اندھا ہوگا اور بہت زیادہ گمراہ۔(1)
نیز متعد روایات میں اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے کہ جو حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود آخر عمر تک حج پر نہ جائے ۔(2)
اس میں شک نہیں کہ ایسا شخص اس آیت کا ایک مصداق ہے نہ کہ آیت کا مفہوم اسی میں منحصر ہے شاید اس مصداق کا ذکر اس بناء پر ہو کہ مراسم حج میں شرکت سے،اس عظیم اسلامی سیمینار میں حاضری سے اور اس میں پنہاں عبادی وسیاسی اسرار کے مشاہدے سے انسان کی آنکھ بینا ہوجاتی ہے اور اس بہت سے حقائق ددکھائی دینے لگتے ہیں ۔
بعض دیگر روایات میں بدترین اندھاپن دل کے اندھے پن کو قراردیا گیا ہے:
شر العمی عمی القلب
بدترین نابینائی دل کا اندھا پن ہے ۔(3)

بہر حال جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ عالمِ قیامت ہمارے اس عالم کے عقائد و اعمال کا عکس العمل ہے ۔اسی بناء پر سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۲۴ سے لے کر ۱۲۶ تک میں ہے:
< وَمَنْ اٴَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِی فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَةً ضَنکًا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اٴَعْمَی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِی اٴَعْمَی وَقَدْ کُنتُ بَصِیرًا قَالَ کَذٰلِکَ اٴَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیتَھَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنسیٰ
”جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرے گا وہ سخت زنگی سے دوچار ہوگا اور روزِ قیامت اندھا محشور ہوگا ۔ اس وقت کہے گا: پرورگار !مجھے تونے کیوں اندھا محشور کیا ہے حالانکہ پہلے تو (دنیا میں) میں بینا تھا ۔ وہ فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آتی تھیں اور تو ان سے آنکھیں بند کرلیتا تھا اور انہیں بھُلا رکھا تھا آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا“۔


۱۔ تفسیر نورالثقلین ج ۳ ص ۱۹۶
2.و3.  ۔تفسیر نور الثقلین ج ۳ ص ۱۹۶و ۱۹۷.