Tafseer e Namoona

Topic

											

									  مخالفین کے مقابلے میں دس اہم اخلاقی احکام

										
																									
								

Ayat No : 125-128

: النحل

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ۱۲۵وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ۱۲۶وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ ۱۲۷إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ ۱۲۸

Translation

آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں. اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر جس قدر انہوں نے تمہارے ساتھ سختی کی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر بہرحال صبر کرنے والوں کے لئے بہترین ہے. اور آپ صبر ہی کریں کہ آپ کا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہوگا اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور ان کی مکاّریوں کی وجہ سے تنگدلی کا بھی شکار نہ ہوں. بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقوٰی اختیار کیا ہے اور جو نیک عمل انجام دینے والے ہیں.

Tafseer

									تفسیر:
 مخالفین کے مقابلے میں دس اہم اخلاقی احکام:
 اس سورہ میں مختلف آیات مشرکوں، یہودیوں اور کلی طور پر تمام مخالف گروہوں کے بارے میں ہیں یہ گفتگو کبھی نرم انداز سے ہے اور کبھی تندوتیز لہجے میں۔ خصوصاً زیر نظر آخری آیات میں اس سلسلے میں زیادہ گہرائی اور شدت ہے۔
 یہ سورہٓ نحل کی آخری آیات ہیں ان میں اہم اخلاقی احکام ہیں ان میں منطقی اور استدلالی گفتگو اور طرز بحث اختیار کرنے کا حکم ہے مخالفین کو سزا دینے اور معاف کرنے کے بارے میں حکم ہے اور ان کی سازشوں کے مقابلے کی کیفیت اور طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ ان احکام سے ایک ہمہ گیر قانون کے طور پر ہر زمانے میں ہر مقام پر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ 
 یہاں ساری گفتگو دس اصولوں پر محیط ہے۔ ترتیب کچھ یوں ہے:
 1) پہلے فرمایا گیا ہے: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے دعوت دے (اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ)۔
 ’’حکمت‘‘ علم و دانش اور منطق و استدلال کے معنی میں ہے۔ اصل میں یہ لفظ منع کرنےکے معنی میں ہے اور علم و دانش اور منطق و استدلال چونکہ فتنہ وفساد اور انحراف سے مانع ہیں لہذا انھیں حکمت کہا جاتا ہے بہر حال راہِ حق کی طرف دعوت دینے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ صحیح منطق اور بچھے تلے استدلال سے کام لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کی فکرونظر کو دعوت دی جائے اور ان کی سوچ بچار کی صلاحیت کو ابھارا جائے اور عقلِ خوابیدہ کو بیدار کیا جائے۔
 2) نیز یہ دعوت عمدہ نصیحت کے ساتھ ہو (وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ)
 راہِ خدا کی طرف دعوت کا یہ دوسرا اصول ہے۔ یہ درحقیقت انسانی جذبات اور فطری احساسات سے استفادہ کرنے کا انداز ہے کیونکہ وعظ و نصیحت دراصل جذب و احساس کو ابھارنے کے لیے ہوتی ہے۔ زیادہ تر عوام کو جذبات و احساسات کو ابھار کر حق کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
 در حقیقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکمت انسان کے عقلی پہلو سے مربوط ہے اور ’’وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ‘‘انسانی جذب و احساس سے کام لینے کے لیے ہے۔۱؎ نیز ’’موعظۃ‘‘ کے ساتھ ’’حسنۃ‘‘ کی شرط شاید اس طرف اشارہ ہے کہ وعظ و نصیحت
-----------------------------------------------------
۱؎ بعض مفسری نے ’’حکمہ‘‘، ’’وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ‘‘ اور ’’مجادلہ احسن‘‘ کے درمیان فرق کے بارے میں کہا ہے کہ ’’حمکۃ‘‘قطعی اور یقینی دلائل کی طرف اشارہ ہے ’’وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ‘‘ ظنی دلائل کو کہتے ہیں اور ’’مجادلہ احسن‘‘ ایسے دلائل سے استفادہ کرنا ہے کہ جو مخالفین کے ہاں قابلِ قبول ہوں (البتہ جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے وہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے)۔
-----------------------------------------------------
اس صورت میں مؤثر ہوتی ہے کہ جب اس میں کسی قسم کی سختی، بڑائی، دوسرے کی تحقیر و تذلیل اور اس کی ہٹ دھرمی کی انگیخت وغیرہ نہ ہو۔ بہت سے لوگوں کے وعظ و نصیحت کا الٹا اثر نکلتا ہے کیونکہ اس میں دوسرے کی تحقیر و تذلیل بائی جاتی ہے یا اس میں وعظ و نصیحت کرنے والے کی بڑائی کا پہلو ہوتا ہے لہذا ’’موعظۃ‘‘ بھی مؤثر ہوتا ہے جب ’’حسنۃ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اور عمدہ ہو۔
 3) اور مخالفین سے زیادہ اچھے طریقے سے مباحثہ کر(وَجَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ)۔
 یہ تیسرا قدم ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے کہ جب کے ذہن میں پہلے سے غلط مسائل اور نظریات سمائے ہوئے ہوں۔ مناظرے اور مباحثے کے ذریعے ان کا ذہن ان کے نظریات سے پاک کرنا چاہیے تا کہ وہ حق قبول کرنے کے قابل ہو سکیں۔
 واضح ہے کہ مجادلہ اور مباحثہ بھی تبھی مؤثر ہوتا جب وہ ’’بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ‘‘ ہو۔ جب وہ حق، عدالت، درستی، امانت اور صداقت کے ساتھ ہو جب اس میں کسی قسم کی تحقیر، توہین، غلط بیانی اور تکبر نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مختصر یہ کہ اس میں تمام انسانی اقدار کا احترام ملحوظ رکھا گیا ہے۔
 زیر نظر آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: تیرا رب ہر کسی سے بہتر جانتا ہے کہ کون لوگ اس کی راہ میں جھک گئے ہیں اور کن لوگوں نے ہدایت پائی ہے (اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ)۔
 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تمھاری ذمہ داری مذکورہ تین طریقوں کے مطابق حق کی طرف دینا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ کون لوگ ہدایت پاتے ہیں اور کون لوگ گمراہی پر ڈٹے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں خدا جانتا ہے اور بس۔
 یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملے میں مذکورہ بالا تین احکام کی دلیل بیان کی گئی ہو۔ یعنی اللہ نے مسخرفین اور کج رو افراد کے بارے میں یہ جو تین حکم دیئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے گمراہوں کے لیے کون سی بات مؤثر ہے اور ہدایت کے لیے کون سا ذریعہ مناسب ہے۔
 4) اب تک تو اس بارے میں گفتگو تھی کہ مخالفین سے منطق، جذب و احساس اور معقول مباحثے کا طرزِ عمل اختیار کیا جائے لیکن معاملہ اگر اس سے بڑھ کر جھگڑے تک جا پہنچے اور مخالفین دستِ تجاوز دراز کریں اور انھیں سزا دینے کی نوبت آجائے تو پھر انھیں اتنی سزا دو جتنی انھوں نے زیادتی کی ہے اس سے زیادہ نہیں (وَاِنْ عَاقَـبْتُـمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِـبْتُـمْ بِهٖ)
 5) لیکن اگر صبر اختیار کرو اور عفو درگزر سے کام لو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ ہی بہتر طرزِ عمل ہے۔ (وَلَئِنْ صَبَـرْتُـمْ لَـهُوَ خَيْـرٌ لِّلصَّابِـرِيْنَ)
 بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت جنگِ اُحد کے دوران میں اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی درد ناک کیفیت دیکھی۔ دشمن نے انھیں شہید کرنے پر بس نہیں کی تھی بلکہ ان کا سینہ اور پہلو بڑی بے دردی سے چیرے گئے ان کا جگر یا دل نکال لیا گیا ان کے کان اور ناک کاٹے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ﷺ بہت دُکھی ہوئے اور فرمایا:
 اللھم لک الحمد و الیک المشتکی وانت المستعان علی ما اری
 خدایا: حمد تیرے لیے ہے اور تیری ہی بارگاہ میں شکایت پیش کرتا ہوں اور جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس پر توہی میرا مدد گار ہے۔
 اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:
 لئن ظفرت لا مثلن ولا مثلن ولا مثلن
 اگر میں ان پر فتحیاب ہوگیا تو ان کا مثلہ کروںگا۔ ان کا مثلہ کرونگا۔ ان کا مثلہ کرونگا۔
 ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا:
 ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروںگا۔۱؎
 اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
 وَاِنْ عَاقَـبْتُـمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِـبْتُـمْ بِهٖ ۖ وَلَئِنْ صَبَـرْتُـمْ لَـهُوَ خَيْـرٌ لِّلصَّابِـرِيْنَ
 رسول اللہ ﷺ نے فوراً عرض کیا:
 اصبر! اصبر !
 خدایا؛ میں صبر کرونگا، میں صبر کروںگا۔۲؎
 شاید رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں یہ لمحہ کرب ناک ترین تھا لیکن پھر بھی آپ ﷺ کو اپنے اعصاب پر پورا کنٹرول تھا آپ ﷺ نے عفو و درگزر کا راستہ اختیار کیا۔ فتح مکہ کے واقعہ میں ہے کہ جس دن آپ ان سنگدلوں پر فتح یاب ہوئے تو عام معافی کا حکم صادر فرمایا اور جنگِ اُحد کے موقع پر اللہ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عالی ظرفی انسانی جذبوں کا بہترین نمونہ دیکھنا چاہے تو واقعہ اُحد کو فتح مکہ کے واقعے کے ساتھ رکھ کر دیکھے اور ان دونوں کا آپس میں موازنہ کرے۔
 شاید آج تک کسی کامیاب قوم نے کسی شکست خوردہ قوم کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا ہو کہ جو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے کامیابی کے بعد مشرکین مکہ سے کیا وہ بھی ایسے ماحول میں کہ جہاں انتقام کے جذبے لوگوں کے رگ و پے میں اترے ہوئے تھے اور نسل در نسل ان میں بغض و کینہ کے سلسلے میراث کے طور پر چلتے رہتے تھے اس معاشرے میں انتقام نہ لینا ایک بہت بڑا عیب سمجھا جاتاتھا۔
 اس ؑالی ظرفی، عظمتِ کردار اور عفوو درگزر کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جاہل اور ہٹ دھرم بہت متاثر ہوئی اور ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ یہاں تک کہ قرآن کے مطابق۔
--------------------------------------------------
۱؎ بعض روایات میں ہے کہ یہ جملہ بعض مسلمانوں نے کہا تھا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو اس سے زیادہ تعداد میں مثلہ کریں گے (تفسیر تبیان جلد ۶ ص ۴۴)
۲؎ تفسیر عیاشی اور تفسیر درالنثور، زیر آیت کے ذیل میں (جیسا کہ تفسیر المیزان میں نقل کیا گیا ہے)
--------------------------------------------------
 یدخلون فی دین اللہ افواجاً
 وہ لوگ فوج در فوج دینِ خدا میں داخل ہوگئے۔
 6) اگر عفوودرگزر اور صبر و شکیبائی کسی توقع کے بغیر ہو تو یقینی طور پر اثر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی صرف اللہ کی خاطر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا قرآن مزید کہتا ہے: صبر اختیار کر اور تیرا یہ صبر صرف اللہ کے لیے ہو اور یہ اس کی توفیق کے بغیرنہیں ہوسکتا (وَاصْبِـرْ وَمَا صَبْـرُكَ اِلَّا بِاللّـٰهِ)۔
 کیا یہ انسان کے بس میں ہے کہ وہ ایسے جاں سوز مواقع پر قوتِ الٰہی اور روھانی جذبے کے بغیر صبر کرے جو اس مناظر کا سامنا کرے اور صبر کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ جی ہاں! یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ سب کچھ خدا کے لیے ہو اور اس کی توفیق سے ہو۔
 7) تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے راستے میں یہ تمام زحمات اٹھانے، عفوودرگزر کرنے اور صبر اختیار کرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلے تو بھی مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہیے بلکہ جتنا زیادہ ممک ہو سکے حوصلے کے ساتھ ٹھنڈے دل سے تبلیغ کا سلسلہ جاری و ساری رکھنا چاہیے۔ اسی لیے تو ساتواں حکم یہ دیا گیا ہے: ان کی حالت پر کبیدہ خاطر نہ ہو (وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْـهِـمْ و)
 یہ حزن و ملال کہ یقیناً ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہے۔ ہو سکتا اس سے دو میں سے ایک تنیجہ پیدا ہو۔ یا تو انسان ہمیشہ کے لیے بد دل ہو جائے یا وہ بے حوصلگی اور بے تابی کا اظہار کرے۔ لہذا حزن و ملال کی نہی درحقیقت دونوں کی نہی ہے۔ یعنی راہِ حق کی دعوت دیتے ہوئے نہ بیتاب و مضطرب ہونا چاہیے اور نہ ہی مایوس و ناامید۔
 8) ان تمام اوصاف کے باوجود ہو سکتا ہے ہٹ دھرم دشمن سازش کا راستہ اپنائے اور خطرناک منصوبے بنائے تو ان حالات میں صحیح مؤقف وہی ہے کہ جو قرآن کہتا ہے: ان سازشوں پر پریشان اور تنگ دل نہ ہو (َلَا تَكُ فِىْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُـرُوْنَ)
 یہ سازشیں جس قدر بھی گہری، وسیع اور خطرناک ہوں تمھارا راستہ نہین روک سکتیں تم یہ خیال کرو ہمارا دائرہ تنگ ہوگیا ہے اور ہم ان سازشوں میں گھر چکے ہیں کیونکہ تمھارا سہارا خدا ہے تم ایمان و استقامت کی قوت سے عقل و دانش سے ان سازشوں کو ناکام کرسکتے ہو۔
   ---------------
 9) ارشاد ہوتا ہے: اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے کہ جو تقوی اختیار کرتے ہیں (اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الَّـذِيْنَ اتَّقَوا)۔
 ’’تقویٰ‘‘ یہاں تمام جہات سے اور وسیع مفہوم میں ہے یہاں تک کہ دشمنوں کے مقابلے میں بھی تقوٰی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے دشمنوں کے ساتھ اسلامی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ برتاؤ کرنا۔ قیدیوں کے ساتھ اسلامی طرزِ عمل اختیار کرنا، کج رو اور منحرف افراد کے ساتھ انصاف اور ادب کے اصولوں کا لحاظ رکھنا اور جھوٹ اور تہمت سے پرہیز کرنا۔ یہاں تک کہ دورانِ جنگ بھی اسلامی اصولوں پر عمل کرنا، تقوی اور اسلامی قوانین کا پاس کرنا۔ جنگ کے دوران میں نہتے اور دفاع نہ کر سکنے والے افراد پر حملہ نہ کرنا، بچوں اور کمزور بوڑھوں سے تعرض نہ کرنا۔ چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا، فصلوں کو تباہ نہ کرنا اور دشمن پر پانی بند نہ کرنا وغیرہ۔ مختصر یہ کہ دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ تقوی کی بنیاد پرسلوک کرنا چاہیے (البتہ بہت کم استثنائی مواقع ایسے ہیں جو اس حکم سے خارج ہیں)۔
 10) اور اللہ نے لوگوں کے ساتھ ہے جو نیکوکار ہیں (وَّالَّـذِيْنَ هُـمْ مُّحْسِنُـوْنَ)۔
 جیسا کہ قرآن نے اپنی دیگر بہت سی آیات میں بھی کہا ہے بعض اوقات بدی کا جواب نیکی سے دینا چاہیے اور اس طریقے سے دشمن کو شرمسار کرنا چاہیے کیونکہ یہ طریقہ ان دشمنوں کو کہ جن کا سینہ دشمنی سے پر ہو اور ’’الو الخصام‘‘ کو مہربان اور مخلص دوست میں تبدیل کر دیتا ہے۔
 احسان اور نیکی اگر بر محل اور برموقع ہو تو یہ جنگ کا ایک عمدہ طریقہ ہے تاریخ ِ اسلام میں اس حکمتِ عملی کے بہت سے مظاہر دکھائی دیتے ہیں فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جو سلوک مشرکینِ مکہ کے ساتھ کیا، جوطرزِ عمل آپ ﷺ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل ’’وحشی‘‘ سے روا رکھا جو مہربانی آپ ﷺ نے بدر کے قیدیوں پر کی اور جو سلوک آپ نے ان یہودیوں کے ساتھ کیا جنہوں نے آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی تھیں وہ سب اس کردار کے مظاہر ہیں۔
 ایسے ہی بہت سے واقعات حضرت علی علیہ السلام اور دیگر آئمہ ہدٰی علیھم السلام کی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں ان واقعات سے اس اسلامی حکم کی وضاحت ہوتی ہے۔
 نہج البلاغہ کا ایک مشہور خطبہ ہے جسے خطبہ ہمام کہا جاتا ہے۔ ہمام ایک عابد و زاہد اور دانا شخص تھا۔ اس نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے پرہیزگاروں کی صفات کے بارے میں ایک جامع حکم کا تقاضا کیا تو امام نے صرف یہ آیت تلاوت فرمائی اور کہا:
 اتق اللہ واحسن ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون
 تقوٰیٓ الٰہی اختیار کرو اور نیکی کرو کیونکہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ جو پرہیز گار اور نیکوکار ہیں۔
 اگرچہ اس عاشقِ حق سائل کی پیاس اس مختصر سے جواب سے نہ بجھی اور پھر تقاضا کیا تو نا چار امام علیہ السلام نے وضاحت سے جواب دیا اور پرہیزگاروں کی صفات کے بارے میں نہایت جامع خطبہ دیا۔ اس میں پرہیز گاروں کی سو سے زیادہ صفات بیان کی گئی ہیں۔ تاہم امام کے پہلے مختصر جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت دراصل پرہیزگاروں کی صفات کا اجمال ہے گویا یہ پرزہیزگاروں کی کتابِ صفات کی فہرست ہے۔
 یہ دس چیزیں مخالفین کے ساتھ طرزِ عمل کے اتمام اصلی اور فرعی خطوط واضح کر دیتی ہیں ان میں غوروفکر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں تمام منطقی، احساساتی اور نفسیاتی طریقے اختیار کرنے کو کہا گیا ہے کہ جو مخالفین پر اثر انداز ہو سکیں۔
 اس کے باوجود اسلام ہر گز یہ نہیں کہتا کہ صرف منطق و استدلال پر قناعت کرو بلکہ اسلام بہت سے مواقع پر ضروری قرار دیتا ہے کہ دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں ہم میدانِ عمل میں نکلیں اور ان کی سختی کے جواب میں ضرورت کی صورت میں سختی سے جواب دیں اور ان کی سازشوں کو باطل کرنے کے لیے ان کا کوئی تو مد رسد باب کریں البتہ اس مرحلے میں بھی عدالت، تقویٰ اور اسلامی اخلاق کا اصول فراموش نہ کیا جئے۔ اگر مسلمان اپنے مخالفین کے مقابلے میں اس ہمہ گیر طریقہ کار کا اختیار کرتے تو شاید آج اسلام ساری دنیا یا اس کے زیادہ تر حصے پر چھایا ہوا ہوتا۔