ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں ایک امت تھے
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۱۲۰شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۱۲۱وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ۱۲۲ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۱۲۳إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۱۲۴
بیشک ابراہیم علیھ السّلامایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے. وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے خدا نے انہیں منتخب کیا تھا اور سیدھے راستہ کی ہدایت دی تھی. اور ہم نے انہیں دنیا میں بھی نیکی عطا کی اور آخرت میں بھی ان کا شمار نیک کردار لوگوں میں ہوگا. اس کے بعد ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ابراہیم علیھ السّلام حنیف کے طریقہ کا اتباع کریں کہ وہ مشرکین میں سے نہیں تھے. ہفتہ کے دن کی تعظیم صرف ان لوگوں کے لئے قرار دی گئی تھی جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے تھے اور آپ کا پروردگار روز قیامت ان تمام باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں.
تفسیر:
ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں ایک امت تھے:
ہم کہہ چکے ہیں کہ سورہ کا موضوع نعمتوں کا بیان ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے جذبہٓ شکر گذاری کو بیدار کیا جائے تا کہ وہ یہ نعمتیں عطا کرنے والے کی معرفت کی جانب آئے۔
زیر نظر آیات میں خدا کا شکر گزاری ایک کامل مصداق یعنی مکتبِ توحید کے مجاہد ہیرو اور علمبردار حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے ان کا ذکر اس لحاظ سے بھی خصوصیت کا حامل ہے کہ مسلمان باعموم اور عرب بالخصوص حضر ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پہلا پیشوا اور مقتدا سمجھتے ہیں۔
اس عظیم اور بہادر اور انسان کی صفات میں سے یہاں پانچ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
۱۔ پہلے فرمایا گیا ہے: ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں ایک امت تھا (ِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ كَانَ اُمَّةً)۔
اس سلسلے میں حضرت ابراہیم کو ’’امت‘‘ کیوں قرار دیا گیا ہے، مفسرین نے مختلف نکات بیان کیے ہیں۔ ان میں سے چار قابلِ ملاحظہ ہیں:
(1) ابراہیم علیہ السلام انسانیت کے عظیم رہبر، مقتداء اور معلم تھے۔ اسی بناء پر انھیں امت کہا گیا ہے کیونکہ ’’امت‘‘ اسمِ مفعول کے معنی میں اسے کہا جاتا ہے جس کی لوگ اقتداء کریں اور جس کی رہبری لوگ قبول کریں۔
(2) ابراہیم علیہ السلام ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ کیونکہ بعض اوقات کسی انسان کی شخصیت کا نور اتنی وسیع شعاعوں کا حامل ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک دو یا بہت سے افراد سے زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کی شخصیت ایک عظیم امت کے برابر ہو جاتی ہے۔
ان دونوں معانی میں ایک خاص روحانی تعلق ہے کیونکہ جو شخص کسی ملت کا سچا پیشوا ہوتا ہے وہ ان سب کے اعمال میں شریک اور حصہ دار ہوتا ہے اور گویا وہ خود امت ہوتا ہے۔
(3) وہ ماحول کہ جس میں کوئی خدا پرست نہ تھا اور جس میں سب لوگ شریک و بُت پرستی کے جوہر میں غوطہ زن تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں ابراہیم تنِ تنہا موحد اور توحید پرست تھے پس آپ تنہا ایک امت تھے اور اس دور کے مشرکین ایک الگ امت تھے۔
(4) ابراہیم علیہ السلام ایک امت کے وجود کا سر چشمہ تھے اس لیے آپ کو ’’امت‘‘ کہا گیا ہے۔
اس میں کوئی اشکال نہیں ’’امت‘‘ کا یہ چھوٹا سا لفظ اپنے دامن میں یہ تمام وسیع معانی لیے ہوئے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک عظیم پیشوا تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک امت ساز جوانمرد تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس ماحول میں کوئی توحید کا دم بھرنے والا نہ تھا وہ توحید کے عظیم علمبردار تھے۔ ۱؎
ایک عرب شاعر کہتا ہے:
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
۲۔ ان کی دوسری صفت یہ تھی کہ وہ اللہ کے مطیع بندے تھے (قانتاً للہ)۔
۳۔ وہ ہمیشہ اللہ کے سیدھے راستے اور طریقِ حق پر چلتے تھے (حنیفاً)۔
۴۔ وہ کبھی بھی مشرکین میں سے نہ تھے۔ ان کے فکر کے ہر پہلو میں، ان کے دل کے ہر گوشے میں اور ان کی زندگی کے ہر طرف اللہ ہی کا نور جلوہ گر تھا (وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ)
۵۔ ان تمام خصوصیات کے علاوہ وہ ایسے جواں مرد تھے کہ اللہ کی سب نعمتوں پر شکر گزار تھے (شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ)۔
-------------------
ان پانچ صفات کو بیان کرنے کے بعد ان کے اہم نتائج بیان کیے گئے ہیں:
1) اللہ نے ابراہیم کو نبوت اور دعوت کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا (اجتبہ)۔
2) اللہ نے انھیں راہِ راست کی ہدایت کی اور انھیں ہر قسم کی لغزش اور انحراف سے بچایا (وَهَدَاهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ)
ہم نے بارہا کہا ہے کہ خدائی ہدایت ہمیشہ لیاقت و اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے کہ جس کا مظاہرہ انسان کی اپنی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے کسی کو کوئی چیز استعداد اور کسی حساب کتاب کے بغیر نہیں دی جاتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اسی بنیاد پر یہ ہدایت نصیب ہوئی۔
3) ہم نے دنیا میں انھیں ’’حسنہ‘‘ سے نوازا۔ (وَاٰتَيْنَاهُ فِى الـدُّنْيَا حَسَنَةً)۔
وسیع معنی کے اعتبار سے ’’حسنہ‘‘ میں ہر قسم کی نیکی اور اچھائی کا مفہوم موجود ہے۔ اس میں مقامِ نبوت و رسالت سے
----------------------------------------------------
۱؎ حضرت عبد المطلب کے بارے میں مروی احادیث میں سے ایک کے الفاظ یوں ہیں:
یبعث یوم القیامۃ امۃ واحدۃ علیہ بھاء الموک و سیماء الانبیاء
عبد المطلب ( چونکہ شرک و بت پرستی کے ماحول میں توحید کے حامی و مددگار تھے اس لیے) قیامت کے دن ایک امت کی شکل میں مبعث ہوں گے ان کی درخشندگی (عدل کے) نام داروں کی سی ہوگی اور ان میں انبیاء کی سی علامتیں ہوںگی۔ (سفینۃ البحار جلد ۲ ص ۱۳۹)
----------------------------------------------------
لے کر اچھی اولاد وغیرہ تک کا مفہوم موجود ہے۔
4) اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہے (وَاِنَّهٝ فِى الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ)۔
اس کے باوجود کہ ابراہیم صالحین کے سردار ہیں پھر بھی قرآن کہتا ہے کہ وہ صالحین میں سے ہیں اور یہ امر مقامِ صالحین کی عظمت کی نشانی ہے کہ ابراہیم اپنے ان تمام بلند مقامات کے باوجود ان میں سے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود حضرت ابراہیم نے اللہ سے یہ ہی تقاضا کیا تھا:
رب ھم لی حکما و الحقنی بالصلحین
پروردگار! مجھے نگاہِ صائب عطا فرما اور مجھے صالحین میں سے قرار دے۔ (شعراء ۸۳)
6) ان صفات کے ساتھ ساتھ ایک اور امتیاز جو اللہ نے حضرت ابراہیم کو عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ ان کا مکتبو مذہب صرف ان کے اہلِ زمانہ کے لیے نہ تھا بلکہ ہمیشہ کے لیے تھا۔ خاص طور پر اسلامی امت کے لیے بھی یہ ایک الہام بخش مکتب قرار پایا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے پھر ہم نے تجھے وحی کی کہ دینِ ابراہیم کا اتباع کر کہ جو خالص توحید کا دین ہے (ثُـمَّ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِــعْ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا)۔۱؎
ایک مرتبہ پھر تاکید کی گئی ہے کہ ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے (وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ)۔
ان آیات کی طرف توجہ کرنے سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگر دینِ اسلام دینِ ابراہیم ہے اور بہت سے مسائل میں مسلمان سننِ ابراہیم کی پیروی کرتے ہیں اور ان میں روزِ جمعہ کا احترام کرنا بھی شامل ہے تو پھر یہودی روز ہفتہ کو کیوں عید قرار دیتے ہیں اور اس روز چھٹی کرتے ہیں۔
زیر نظر آخری آیت میں اس سوال کا جواب موجود ہے، ارشاد ہوتا ہے: ہفتے کا دن(اور ہفتے کے روز حرام قرار دی گئی چیزوں کا حکم) یہودیوں کے لیے سزا کے طور پر مقرر تھا اور پھر انھوں نے اس میں بھی اختلاف کیا ان میں سے بعض نے اس سزا کو قبول کر لیا اور اس روز کام کاج بالکل چھوڑ دیا اور بعض نے اس کے بارے میں اعتنائی سے کام لیا (اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّـذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ)
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا گیا کہ وہ روزِ جمعہ کا احترام کریں اور اس روز تعطیل کیا کریں یہ حکمِ دینِ ابراہیم کے مطابق تھا لیکن انھوں نے بہانے بنائے اور روز ہفتہ کو ترجیح دی تو اللہ نے ان کے لیے ہفتے کا دن مقرر کیا لیکن اس کے بارے میں سختی برتی گئی اور کئی حد بندیاں اور شرائط نافظ کر دیں لہذا فرمایا گیا ہے کہ روزِ ہفتہ کی تعطیل کے اس حکم کو تمھیں سند قرار نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ حکم تو بڑی سخت سزا کا پہلو رکھتا ہے اور اس سلسلے میں بہترین دلیل یہ ہے کہ
----------------------------------------------------
۱؎ ’’حنیف‘‘ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو ٹیڑھے اور انحراف راستے کو چھوڑ کر درست اور سیدھے راستے کی طرف متوجہ ہو دوسرے لفظوں میں ’’حنیف‘‘ وہ شخص ہے جو ٹیڑھے اور انحرافی دنیوں اور راستوں سے منہ موڑ کر اللہ کے صراطِ مستقیم کا رخ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صراطِ مستقیم کہ جو ایسا دین ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہے اور اس ہم آہنگی کی وجہ سے صراطِ مستقیم شمار ہوتا ہے لہذا لفظ ’’حنیف‘‘ میں توحید کے فطری ہونے کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ موجود ہے۔
----------------------------------------------------
یہودیوں نے خود اپنے اس انتخاب شدہ دن کے بارے میں بھی اختلاف کیا ہے ان میں سے بعض تو اس دن کی قدر و منزلت کے قائل ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں اور بعض اس کے اس کے احترام کو نظر انداز کرتے ہوئے کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوتے ہیں۔
یہ احتمال بھی ہے کہ زیر بحث آیت جانوروں کی غذا کے سلسلے میں مشرکین کی بدعتوں کے بارے میں ہو کیونکہ گزشتہ آیات میں جو گفتگو ہوئی ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں میں جو محرمات تھے وہ اسلام میں کیوں نہیں ہیں تو جواب دیا گیا ہے کہ وہ محرمات سزا کے طور پر تھے۔
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے احکام یہودیوں میں کیوں تھے؟ مثلاً مچھلی کا شکار ہفتہ کے روز ان کے لیے حرام کیوں تھا جبکہ اسلام میں ایسا نہیں ہے پھر جواب یہ ہی ہے ایسا ان کے لیے عذاب کا سزا کے طور پر تھا۔
بہر حال ان آیات کا تعلق سورہٓ اعراف کی آیات ۱۶۳ تا ۱۶۶ سے ہے کہ جو ’’اصحاب السبت‘‘ کے بارے میں ہیں۔
اس سلسلے میں ہم تفسیر نمونہ کی جلد ۶ میں وضاحت کر چکے ہیں۔۱؎ وہاں بتایا گیا ہے کہ وہ ہفتے کے روز کس طرح مچھلی شکار کرتے تھے اس حکم اور خدائی آزمائش کے بارے میں وہاں وضاحت موجود ہے اس کی مخالفت کرنے والے یہودیوں کو جو سخت سزا ملی اس کا بھی وہاں ذکر موجود ہے۔
ضمناً توجہ رہے کہ ’’سبت‘‘ دراصل آرام کے لیے کام سے تعطیل کرنے کے معنی میں ہے اور روزِ ہفتہ کو اس لیے ’’یوم السبت‘‘ کہتے ہیں کہ یہودی اس روز عام کاروبار سے تعطیل کرتے تھے بعد ازاں مسلمانوں میں بھی اس دن کا یہ ہی نام باقی رہ گیا اگرچہ اسلام میں یہ تعطیل کا دن نہ تھا۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: جنھوں نے اختلاف کیا ہے ان کے بارے میں اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ (وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَـهُـمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيْمَا كَانُـوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ)۔
جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ قیامت کے روز ایک مقصد یہ حاصل کیا جائےگا کہ تمام معاملات کے بارے میں اختلافات ختم کر دیئے جائیں گے کیونکہ وہ یوم البروز اور یوم الظہور ہوگا اس روز تمام حقیقتیں ظاہر ہوجائیں گی پردے ہٹ جائیں گے ہر مسئلے اور ہر معاملے کے بارے میں حق آشکار ہوجائے گا۔
------------------------
------------------------
--------------------------------------------------------
۱؎ دیکھو صفحہ ۳۵۶ (اردو ترجم تفسیر نمونہ جلد ۶)۔
--------------------------------------------------------