Tafseer e Namoona

Topic

											

									  جھوٹے کبھی فلاح نہیں پائیں گے

										
																									
								

Ayat No : 115-119

: النحل

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۱۵وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ۱۱۶مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۱۱۷وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ۱۱۸ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۱۹

Translation

اس نے تمہارے لئے صرف اَمفِدار ,خون ,سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کردیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہوجائے اور نہ بغاوت کرے نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اس کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہوجاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے. یہ دنیا صرف ایک مختصر لذّت ہے اور اس کے بعد ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے. اور ہم نے یہودیوں کے لئے ان تمام چیزوں کو حرام کردیا ہے جن کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں اور یہ ہم نے ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے. اس کے بعد تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی میں برائیاں کی ہیں اور اس کے بعد توبہ بھی کرلی ہے اور اپنے کو سدھار بھی لیا ہے تمہارا پروردگار ان باتوں کے بعد بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.

Tafseer

									تفسیر:

جھوٹے کبھی فلاح نہیں پائیں گے:
 گذشتہ آیات میں اللہ کی پاکیزہ نعمتوں اور ان کے شکرانے کے بارے میں گفتگو تھی۔ زیر بحث آیات میں وہی سلسلہ کلام جاری ہے۔ اب ان چیزوں کا ذکر ہے کہ جو واقعتاً حرام ہیں نیز جنھیں لوگوں نے دینِ خدا میں بدعت کے طور پر حرام قراد دے لیا ہے۔
 ارشاد ہوتا ہے: جانوروں سے مربوط غذا میں سے اللہ نے چار چیزیں حرام قرار دی ہیں مردار، خون، سور کا گوشت اور وہ جانور کہ جن کا سر غیر اللہ کے نام پر کاٹا گیا ہے (اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالـدَّمَ وَلَحْـمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ)
 مردار، خون اور سور کا گوشت حرام ہونے کا فلسفہ سورہٓ بقرہ کی آیت ۱۷۳ کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا (پہلی جلد میں مذکورہ آیت کی طرف رجوع کریں)۔
 دورِ حاضر میں کسی سے مخفی نہیں کہ یہ تینوں چیزیں کس قدر آلودگی کی حامل ہیں۔ مردار طرح طرح کے جراثیم کا منبع ہے خون بھی بدن کے تمام اجزاء کی نسبت جراثیموں کے اعتبار سے زیادہ آلودہ ہے اور سور کا گوشت بھی کئی طرح ک خطرناک بیماریوں کے لیے حامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان تمام سے قطع نظر جیسا کہ ہم نے سورہٓ بقرہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے خون اور سور کا گوشت کھانے سے جسمانی نقصانات کے علاوہ نفسیانی اور اخلاقی قباحتیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور یہ اپنے ہارمونز ( Harmones) انسان کے وجود میں بطور یادگار چھوڑ جاتے ہیں۔
 مردار بھی چونکہ ذبح نہیں کیا گیا ہوتا اس لیے اس سے خون باہر نہیں نکلتا لہذا اس کے کھانے سے دوسرے نقصانات کے علاوہ خون کھانے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔
 رہے وہ جانور کہ جو غیر خدا کے نام پر ذبح ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ہم جو آج بسم اللہ کہتے ہیں وہ اس کی بجائے بتوں کے نام لیتے تھے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی حرم یقیناً صحت کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ یہ حکم اخلاقی اور روحانی پہلو رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں حلال و حرام کا حکم صرم صحت کے حوالے سے نہیں بلکہ کچھ محرمات
----------------------------------------------------
۱؎ ’’اھل‘‘ ’’اھلال‘‘ کے مادہ سے لیا گیا ہے اور یہ بھی دراصل ’’ھلال‘‘ سے لیا گیا ہے یہ چاند دیکھتے وقت آواز بلند کرنے کے معنی میں ہے مشرکین جانور ذبح کرتے وقت بتوں کے نام بلند آواز سے لیتے تھے لہذا اسے ’’اھل‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے۔
----------------------------------------------------
صرف روحانی پہلورکھتی ہیں ان کا مقصد نہذیب ِ نفس ہوتا ہے اور انھیں اخلاقی مسائل کے پیشِ نظر حرام کیا گیا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات صرف نظامِ معاشرہ کی حفاظت کے لیے بعض چیزیں حرام قرار دے دی گئی ہیں جو جانور نامِ خدا لیے بغیر ذبح کر دیئے جاتے ہیں ان کی حرمت بھی اخلاقی پہلو سے ہے کیونکہ یہ حکم ایک طرف سے تو شرک اور بت پرستی کے خلاف جنگ ہے اور دوسری طرف ان نعمتوں کے خالق کی طرف توجہ کا باعث ہے۔
 ضمنی طور پر اس آیت سے اور بعد کی آیات سے مجموعی طور پر یہ نکتہ ہوتا ہے کہ گوشت استعمال کرنے کے سلسلے میں اسلام اعتدال کا راستہ معین کرتا ہے۔ اسلام اس سلسلے میں نا ساگ پات کھانے والے ہندومت کی طرح اس غذا کو بالکل حرام قرار دیتا ہے اور نہ دورِ جاہلیت اور ہمارے زمانے کے بعض بزعم خویش تہذیب یافتہ لوگوں کی طرح ہر قسم کا گوشت کھانے کی اجازی دیتا ہے (یہاں تک کہ بعض لوگ سوسمار، سرطان اور طرح طرح کے کیڑے مکوڑے تک کھا جاتے ہیں)۔
ایک سوال کا جواب:
 یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ:
 زیر بحث آیت میں حکمِ حرمت صرف چار حرام چیزوں میں منحصر ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اور بھی بہت سے حرام جانور ہیں مثلاً درندوں کا گوشت اور چھلکے والی مچھلی کے علاوہ طرح طرح کے دریائی جانور۔ یہاں تک کہ قرآن کی دوسری سورتوں میں ابھی ان چار سے زیادہ حرام چیزوں کا ذکر ہے۔ مثلاً سورہٓ مائدہ کی آیت ۳ دیکھیے۔ لہذا یہاں حکم چار چیزوں میں محدود کیوں ہے؟
 اس سوال کا جواب ہم چھٹی جلد میں سورہٓ انعام کی آیہ ۱۴۵ کے ذیل میں بھی دے  آئے ہیں ہم کہہ چکے ہیں کہ یہاں ایک نکتہ پنہاں ہے وہ یہ کہ اس مقام پر حصر اصطلاح کے مطابق ’’حصر اضافی‘‘ ہے یعنی ’’انما‘‘ جو کہ حصر کے لیے آتا ہے یہاں اس کا مقصد بدعتوں کی نفی ہے یہ بدعتیں مشرکین میں کچھ جانوروں کی حرم کے بارے میں رائج تھیں۔ دراصل قرآن کہتا ہے: یہ حرام ہیں نہ کہ وہ جو تم کہتے ہو‘‘۔
 یہ احتمال بھی ہے کہ جن چار چیزوں کا یہاں قرآن ذکر کرتا ہے وہ اصلی اور بنیادی محرمات ہیں (مثلاً ’’منخنقۃ‘‘ یعنی جس جانور کا گلا گھونٹ دیا جائے یا اس قسم کا کوئی جانور جس کا ذکر سورہٓ مائدہ کی آیہ ۳ میں آیا ہے وہ بھی انھی چار جانوروں میں داخل ہے کیونکہ یہ بھی مردار ہی ہے) اسی طرح جانوروں کے کچھ حرام اجزاء یا مختلف قسم کے حیوانات مثلاً درندے یہ سب دوسرے درجے کے محرمات ہیں اسی لیے ان کی حرمت کا حکم سنتِ رسولﷺ میں آیا ہے اس صورت میں آیت میں موجود حصر حقیقی حصر ہو سکتا ہے (غور کیجیے گا)۔
   -------------------
 جیسا کہ قرآن کی سنت ہے، آیت کے آخر میں استثنائی مواقع کا ذکر ہے فرمایا گیا ہے: جو لوگ حرام گوشت کھانے پر مجبور ہو جائیں (مثلاً کسی بیاباں میں ہوں جہاں کچھ اور کھانے کو نہ مل سکے اور ان کی جان خطرے میں ہو) اور صرف جان بچانے کی حد تک ان میں سے کچھ کھا لیں اور حد سے تجاوز نہ کریں تو ان کے لیے کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
(فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ)
 ’’باغ‘‘ یا ’’باغی‘‘ ’’بغی‘‘ کے مادہ سے طلب کے معنی میں ہے یہاں طلبِ لذت کے معنی میں یا حرامِ الٰہی کو حلال شمار کرنے کے مفہوم میں ہے۔
 ’’عاد‘‘ یا ’’عادی‘‘ ’’عدو‘‘ کے مادہ سے تجاوز نہ کرنے کے معنی میں ہے یہاں وہ شخص مراد ہے کہ جو بوقتِ ضرورت ان حرام کردہ چیزوں کو حدِ لازم سے بڑھ کر استعمال کر لے۔
 البتہ اہلِ بیت علیھم السلام کی بعض روایات میں ’’باغی‘‘ ’’ظالم‘‘ کے معنی میں اور ’’عادی‘‘ ’’غاصب‘‘ کے معنی میں تفسیر ہوا ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایات میں ’’باغی‘‘ کا مطلب امام کے خلاف قیام کرنے والا شخص اور ’’عادی‘‘کا مطلب چور بیان کیا گیا ہے۔
 ہو سکتا ہے یہ روایات اس طرف اشارہ ہوں کہ حرام گوشت کھانے کے لیے اضطراری کیفیت عموماً دورانِ سفر پیدا ہوتی ہے اب اگر کوئی شخص ظلم، غصب اور چوری کے لیے سفر کرے اور اس قسم کا گوشت کھائے اگرچہ اس کے لیے ضروری ہو جائے کہ اپنی جان بچانے کے لیے ایسا کرے لیکن اللہ تعالی ایسے شخص کا یہ گناہ نہیں بخشے گا۔
 بہرحال یہ تفسیریں آیت کے عمومی مفہوم کے منافی نہیں ہیں اور انھیں یکجا کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
 مشرکین نے بے بنیاد طور پر جو چیزیں حرام قرار دے لی تھیں اور جن کا ذکر پہلے ہو چکا۔ اگلی آیت میں ان کے بارے میں صراحت سے فرمایا گیا ہے: اور اللہ پر افتراء باندھتے ہوئے اپنی زبانوں سے غلط طور پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلَالٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَـرُوْا عَلَى اللّـٰهِ الْكَذِبَ)۔۱؎
 یعنی یہ ایک واضح چھوٹ ہے کہ جو صرف تمھاری زبانوں سے ٹپکا ہے کہ تم خود سے کچھ چیزوں کا حلال بنا لیتے ہو اور کچھ کو حرام۔ (یہ ان چوپایوں کی طرف اشارہ ہے کہ مشرکین جن میں سے کچھ کو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے اور کچھ کو حلال اور ان میں سے بعض کو بتوں کے نام کر دیتے تھے)۔
 کیا اللہ نے تمھیں ایسی قانون سازی کا حق دیا ہے؟ کیا یہ خدا پر افتراء نہیں؟ تمھیں تمھارے بےہودہ افکار اور اندھی تقلید نے ان بدعتوں سے باندھ رکھا ہے۔
 سورہٓ انعام کی آیہ ۱۳۶ میں وضاحت کےساتھ آیا ہے کہ وہ لوگ اس طرح کے حلال و حرام گھڑے کے لیے اپنی
----------------------------------------------------
۱؎ ’’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ‘‘ کی ترکیب اس طرح ہے:
 اس میں لام، لامِ تعلیل ہے اور ’’لما تصف‘‘ میں ’’ما‘‘ ماءِ مصدریہ ہے اور ’’کذب‘‘ ’’تصف‘‘ کا مفعول ہے جو مجموعی طور پر یوں ہوگا۔
 لا تقولوا ھذا حلال و ھذا حرام لتوصیف السنتکم الکذب
 اپنی زبانوں سے جھوٹی توصیف کرتے ہوئے نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے۔
----------------------------------------------------
زرعی پیداوار کا ایک حصہ اللہ کے نام پر وقف کر دیتے تھے اور ایک حصہ بتوں کے نام۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ کہتے تھے کہ بتوں کے نام جو حصہ کیا ہے وہ ہرگز اللہ کو نہیں پہنچ سکتا لیکن جو حصہ خدا کے لیے۔ وہ بتوں کو پہنچتا ہے لہذا اللہ کے حصے کو نقصان پہنچ جائے تو بتوں کے حصے سے اسے پورا نہیں کیا جاسکتا لیکن بتوں کا حصہ کم ہو جائے تو اسے اللہ کے حصے سے پورا کر دیتے اس قسم کی اور بھی ان میں بہت سی خرافات تھیں۔
 سورہ انعام کی آیت ۱۴۸ میں ہے:
 سَيَقُوْلُ الَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَىْءٍ
 مشرکین کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم لوگ شرک کرتے اور نہ ہمارے آباء اور نہ ہی ہم کوئی چیز اپنے اوپر حرام کرتے۔
 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ انھیں حق پہنچتا ہے کہ کچھ چیزوں کو حلال قرار دے لیں یا حرام۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خدا بھی ان کی بدعتوں کا موافق ہے (یہ ہی وجہ ہے کہ پہلے وہ کوئی بدعت ایجاد کرتے، کسی چیز کو حلال یا حرام بناتے اور پھر اسے خدا سے منسوب کر دیتے اور اس طرح ایک جھوٹ کے مرتکب ہوتے)۔۱؎
 آیت کے آخر میں ایک حتمی خطرے کے الارم کے طور پر فرمایا گیا ہے: جو لوگ خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کبھی نجات اور فلاح نہیں پائیں گے (ِنَّ الَّـذِيْنَ يَفْتَـرُوْنَ عَلَى اللّـٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ)
 اصولی طور پر جھوٹ کسی کے بارے میں بھی ہوا ہے ہی بدبختی اور عدم فلاح کا سبب۔ چہ جائیکہ وہ خدائے بزرگ کے بارے میں ہو۔ ظاہر ہے ایسے جھوٹ کا گناہ اور برے اثرات کئی گناہوں گے۔
 اگلی آیت میں عدمِ فلاح اور بدبختی کی اس طرح سے وضاحت کی گئی ہے: ایسے کاموں سے وہ اس دنیا سے تو تھوڑا سا فائدہ اٹھالیں گے لیکن اس کے مقابلے میں درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے ( مَتَاعٌ قَلِيْلٌ ۖوَلَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ)
 یہ متاعِ قلیل ہو سکتا ہے شکمِ مادر میں مرجانے والے جانوروں کے بچوں کی طرف اشارہ ہو جنھیں وہ اپنے لیے حلال شمار کرتے تھے اور ان کا گوشت استعمال کرتے تھے یا ہو سکتا ہے ان کی خود غرضی اور پیٹ پرستی کی طرف اشارہ ہو کہ جو ان کی بدعتوں کا باعث تھی یا یہ کہ ان کے اس طرزِ عمل کی طرف اشارہ ہو کہ وہ اس شرک اور بت پرستی کو مضبوط کرتے اور لوگوں کو اس میں مشغول رکھتے تا کہ ان پر اس طرح سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرتے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ’’متاعِ قلیل‘‘ تھا کہ جس کا تنیجہ ’’عذابِ الیم‘‘ تھا۔
   -----------------------
 ممکن ہے یہاں پہ سوال کیا جائے کہ چار چیزوں کا جن کا ان آیات میں ذکر ہے۔ ان کے علاوہ جانور یہودیوں پر
--------------------------------------------------------
۱؎ اسی بناء پر زیر بحث آیت میں خدا پر افتراء کا ذکر جو لام کے ساتھ آیا ہے، ان کی بدعتوں کا نتیجہ ظاہر کر رہا ہے (غور کیجیے گا)۔
--------------------------------------------------------
کیوں حرام کیے گئے تھے؟
 اگلی آیت گویا اس سوال کا جواب دے رہی ہے، ارشاد ہوتا ہے: اور یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کر دی تھیں جو تم سے پہلے بیان کر چکے ہیں (وَعَلَى الَّـذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ)
 یہ ان چیزوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن کا ذکر سورہٓ انعام کی آیہ ۱۴۶ میں اس طرح سے آیا ہے:
 وَعَلَى الَّـذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِىْ ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَـمِ حَرَّمْنَا عَلَيْـهِـمْ شُحُومَهُمَآ
  اِلَّا مَا حَـمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَـآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُـمْ بِبَغْيِـهِـمْ ۖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ

 یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار حیوان حرام کر دیا ہے (یہ ان جانوروں کی طرف اشارہ ہے جو گھوڑے کے سموں کی طرح یکپاءچہ ہوتے ہیں) نیز گائے اور گوسفند کی پشت، انتڑیوں کے درمیان اور دونوں پہلوؤں یا ہڈی سے ملی ہوئی چربی کے علاوہ باقی چربی بھی حرام قرار دی ہے۔ یہ حرم ان کے ظلم کی وجہ سے سزا کے طور پر ہے اور ہم سچ کہتے ہیں۔
 درحقیقت حرمت کے یہ اضافی احکام یہودیوں کے مظالم اور ستم کاریوں پر عذاب اور سزا کے طور پر تھے۔ اسی لیے زیر بحث آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے:
 وما ظلمنا ھم ولٰکن کانوا انفسھم یظلمون
 ہم نے ان پر ستم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔
 سورہٓ نساء کی آیت ۱۶۰ اور ۱۶۱ میں ہے:
 فَبِظُـلْمٍ مِّنَ الَّـذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْـهِـمْ طَيِّبَاتٍ اُحِلَّتْ لَـهُـمْ وَبِصَدِّهِـمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ كَثِيْـرًا وَاَخْذِهِـمُ
 الرِّبَا وَقَدْ نُـهُوْا عَنْهُ وَاَكْلِهِـمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ 
 یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے کچھ پاکیزہ غذائیں جو ذاتا حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں کیونکہ وہ لوگوں کو راہِ خدا سے روکتے تھے اور سود کھاتے تھے حالانکہ انھیں ان کاموں سے منع کیا گیا تھا اور وہ لوگوں کا مال باطل طور پر کھاتے تھے۔
 لہذا یہودیوں پر کچھ گوشت انھیں سزا دینے کے لیے حرام قرار دے دیئے گئے اور مشرکین کو حق نہیں پہنچتا تھا وہ اس سے استدلال کریں۔
 علاوہِ ازیں جو چیزیں مشرکین نے حرام کی ہوئی تھیں نہ یہودیوں کے مذہب میں حرام تھیں اور نہ دینِ اسلام میں۔
 وہ تو خرافات کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی بدعتیں تھیں۔
 (ہو سکتا ہے زیر بحث آیت اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو کہ تم نے ایسا کام کیا ہے کہ جو کسی آسمانی کتاب سے مطابقت نہیں رکھتا)۔ (وما ظلمنا ھم ولٰکن کانوا انفسھم یظلمون)
 زیر نظر آخری آیت میں قرآن اپنی روش کے مطابق فریب خوردہ یا پشیمان ہو جانے والے افراد کے لیے لوٹ آنے کا راستہ کھولتے ہوئے فرماتا ہے: تیرا پروردگار ان کے بارے میں کہ جنھوں نے جہالت کے باعث برے اعمال انجام دیئے ہیں اور پھر انھوں نے توبہ کر لی ہے اور اصلاح و تلافی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں! تیرا پروردگار توبہ و اصلاح کے بعد بخشنے والا مہربان ہے (ثُـمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّـذِيْنَ عَمِلُوا السُّوٓءَ بِجَهَالَـةٍ ثُـمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُـوٓا اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ)
 یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اولاً۔۔۔۔۔ ارتکاب ِ گناہ کی وجہ جہالت کو شمار کیا گیا ہے کیونکہ جہالت ہی بہت سے گناہوں کا حقیقی عامل ہے اور جو لوگ جہالت میں ارتکابِ گناہ کرتے ہیں وہی آگاہی کے بعد راہِ حق کی طرف لوٹتے ہیں نہ کہ وہ جنھوں نے جان بوجھ کر غروروتکبر، تعصب یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے غلط راستہ اختیار کیا ہو۔
 ثانیاً۔۔۔۔۔ قرآن یہاں توبہ کو فقط دل کی توجہ و ندامت تک محدود نہیں کرتا بلکہ اس کی عمل تاثیر پر تاکید کرتا ہے اور اصلاح و تلافی کے ساتھ توبہ کو مکمل شمار کرتا ہے یہ اس لیے ہے کہ ہم غلط فکرہی کو دل و دماغ سے باہر نہ نکالیں کیونکہ ہزاروں گناہوں کا ازالہ ’’استغفراللہ‘‘ کے ایک جملے سے نہیں ہو سکتا۔ انسانی روح یا معاشرے کو جو نقصان گناہ سے پہنچتا ہے اس کی اصلاح و مرمت کی ضرورت ہوتی ہے یہ ہی ہے حقیقی توبہ نہ کہ زبانی توبہ۔
 ثالثاً اس مسئلے پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ ’’ان ربک من بعدھا لغفور رحیم‘‘ (ایسا ہوجائے تو یقیناً تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے) کہہ کرت تاکید مزید کی گئی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رحمتِ الٰہی کا حصول توبہ و اصلاح کے بعد ہی ممکن ہے۔
 بہ الفاظ دیگر یہ حقیقت ہے کہ توبہ کی قبولیت یقینی طور پر ندامت، تلافی اور اصلاح کے بعد ہے اور تین تعبیروں کے ذریعے ایک ہی آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پہلے لفظ ’’ثمہ‘‘ آیا ہے پھر ’’ من بعد ذٰلک‘‘ آیا ہے اور آخر میں ’’من بعدھا‘‘ فرمایا گیا ہے۔ یہ اس لیے ہے تا کہ وہ برے افراد جو مسلسل گناہ کرتے رہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہم لطفِ الٰہی اور اس کی بخشش و رحمت کے امیدوار ہیں، یہ سوچ اپنے دماغ سے نکال دیں۔ 
   -------------------
   -------------------