Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند اہم نکات

										
																									
								

Ayat No : 106-111

: النحل

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۱۰۶ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ۱۰۷أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ۱۰۸لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ۱۰۹ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۱۰يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ۱۱۱

Translation

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے. یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا ہے اور اللہ ظالم قوموں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا ہے. یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور آنکھ کان پر کفر کی چھاپ لگا دی گئی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جوحقیقتا حقائق سے غافل ہیں. اور یقینا یہی لوگ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہیں. اس کے بعد تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے فتنوں میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی ہے اور پھر جہاد بھی کیا ہے اور صبر سے بھی کام لیا ہے یقینا تمہارا پروردگار بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے. قیامت کا دن وہ دن ہوگا جب ہر انسان اپنے نفس کی طرف سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ہوگا اور نفس کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا.

Tafseer

									چند اہم نکات:
 ۱۔ تقیہ اور اس کا فلسفہ:- پیغمبر اسلام ﷺ کے تربیت یافتہ حقیقی مسلمان دشمنوں کے مقابلے میں حیران کن، تحمل اور قوتِ پرداشت کا مظاہرہ کرتے تھے مثلاً جیسا کہ ہم نے دیکھا عما رضی اللہ عنہ کے والد ایک جملہ بھی دشمن کی مرضی کا کہنے کو تیار نہ ہوئے ان کا دل ایمان باللہ اور عشقِ رسول ﷺ سے سرشار تھا اور انھوں نے اسی راہ میں اپنی جان نثار کر دی عمار زبان سے کچھ کہنے کے لیے تیار ہوگئے پھر وہ سرتاپا پریشانی اور ندامت میں غرق ہوگئے
------------------------------------------------------
۱؎ ’’مرتد فطری‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جو مسلمان باپ یا ماں سے پیدا ہوا اور اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے لیکن ’’مرتد ملی‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ماں باپ اس کے انعقاد نطفہ کے وقت مسلمان نہ ہوں لیکن بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا ہو اور پھر اس سے پھر جائے۔
۲؎ مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ’’یوم‘‘ کس فعل سے تعلق رکھتا ہے بعض اسے فعلِ مقدر سے متعلق سمجتھے ہیں اور کہتےہیں کہ تقدیر میں ’’ذکرھم یوم تأتی‘‘ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ گزشتہ آیت میں جو ’’غفور و رحیم‘‘ آیا ہے یہ ان کے فعل ’’غفران‘‘ اور ’’رحمت‘‘ سے تعلق رکھتا ہے (لیکن ہم نے سطور بالا میں پہلے احتمال کو اس کی عملی جامعیت کی وجہ سے ترجیح دی ہے)۔
------------------------------------------------------
وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے تھے انھیں اس وقت تک قرار نہ آیا جب تک رسول اللہ ﷺ نے اطمینان نہ دلایا کہ ان کا عمل جان بچانے کے لیے ایک تدبیر کے طور پر شرعاً جائز ہے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حالات میں ہے کہ جس وقت وہ اسلام لائے اور وہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے دفاع کے لیے  بڑی شجاعت سے اُٹھ کھڑے ہوئے تو مشرکین انھیں شدید اذیتیں دینے لگے یہاں تک کہ انھیں چلچلاتی دھوپ میں گھسیٹ کر لے جاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے اور ان سے مشرکانہ کلمات ادا کرنے کو کہتے مگر وہ ایسا نہ کرتے۔ مشرکین اتنا ستم ڈھاتے کہ ان کی سانس اکھڑ اکھڑ جاتی مگر وہ مسلسل ’’احد‘‘، ’’احد‘‘ (اللہ ایک ہی ہے، اللہ ایک ہی ہے) کہتے چلے جاتے اور اس کے بعد کہتے کہ بخدا ! اگر مجھے معلوم ہو کہ کوئی بات بھی اس سے بڑھ کر تمھیں ناگوار ہے تو میں وہی کہتا۔۱؎
 حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کے حالات میں ہے کہ جب مسیلمہ کذاب نے انھیں گرفتار کر لیا تو ان سے پوچھا۔
 ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (ﷺ) اللہ کا رسول ہے؟
 انھوں نے کہا: ہاں
 پھر اس نے پوچھا: کیا تو یہ گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
 حبیب نے تمسخر سے کہا: مجھے تمھاری بات نہیں سنائی دے رہی۔
 مسیلمہ اور اس کے پیروکاروں نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا مگر ان کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہ آئی اور وہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ ۳؎
 ایسے ہلا دینے والے واقعات تاریخ ِ اسلام میں خصوصاً صدر اول کے مسلمانوں اور آئمہ اہلِ بیت علیہم السلام کے اصحاب و انصار میں بہت زیادہ ہیں۔
 اسی بناء پر محققین نے کہا ہے کہ ایسے مواقع پر تقیہ اختیار نہ کرنا اور دشمن کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا جائز اگرچہ اس میں انسان کی جان کیوں نہ چلی جائے کیونکہ ہدف پرچم اسلام کی سربلندی اور اعلائے کلمہ اسلام ہے خصوصاً پیغمبر اسلام ﷺ کی دعوت کے آغاز میں یہ امر خاص اہمیت رکھتا تھا۔
 اس کے باوجود اس میں شک نہیں ہے کہ ایسے مواقع پر بھی تقیہ جائز ہے اور اس سے کم تر مواقع پر واجب ہے۔ تقیہ (خاص مواقع پر ہر جگہ نہیں) نا آگاہ افراد کے خیال کے برخلاف نہ تو کمزوری کی نشانی ہے نہ جمعیت دشمن سے خوف کی اور نہ ان کے دباؤ کے سامنے جھک جانے کی۔ بلکہ تقیہ ایک سوچی سمجھی تدبیر اور تکنیک ہے انسانی قوتوں کی حفاظت کی اور کم اہم مواقع پر اہلِ ایمان کی جان ضائع ہونے سے بچانے کی۔
-----------------------------------------------------
۱؎ تفسیر فی ظلال جلد ۵ ص ۳۸۴
۲؎ تفسیر فی ظلال جلد ۵ ص ۳۸۴
-----------------------------------------------------
ساری دنیا میں معمول ہے کہ حریت پسند اور مجاہد اقلیتیں خود سر اور ظالم اکثریتوں کا تختہ الٹنے کے لیے مخفی طریقے اختیار کرتی ہیں یہ لوگ زیر زمین افراد تیار کرتے ہیں جو خفیہ طورپر کام کرتے ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کے بھیس میں کام کرتے ہیں یہاں تک کہ گرفتار ہو جائیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا اصلی کام مخفی رہے تا کہ ان کے گروہ کی قوتیں بیکار ضائع نہ ہوجائیں اور وہ  جدوجہد جاری رکھ سکیں۔
 کوئی عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایسے حالات میں مجاہدین کہ جو تھوڑی سی تعداد میں ہیں اپنے آپ کو دشمن پر ظاہر کر کے تباہ ہو جائیں۔
 اسی بناء پر تقیہ ایک اسلامی حکمتِ عملی سے پہلے ان تمام لوگوں کے لیے ایک عقلی اور منطقی طریقہ ہے کہ جو کسی طاقتور دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے یا کر رہے ہیں۔
 اسلامی روایات میں بھی تقیہ کو ایک دفاعی ہتھیار اور ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے۔ چناچہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:-
 التقیۃ ترس المؤمن والتقیۃ حرز المؤمن
 تقیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن کی ڈھال اور اس کا دفاعی ہتھیار ہے۔ ۱؎
 (توجہ رہے کہ تقیہ کو یہاں سپر اور ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے جبکہ ڈھال وہ ہتھیار ہے کہ جسے صرف میدانِ جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے انقلابی قوتوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے)۔
 یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ احادیث میں تقیہ کو دین کی نشانی، ایمان کی علامت اور دین کے دس حصوں میں سے تو حصے شمار کیا گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔
 البتہ تقیہ ایک وسیع موضوع ہے یہاں اس کی تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے ہمارا مقصد یہ تھا کہ اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ جو لوگ تقیہ کی مذمت کرتے ہیں وہ درحقیقت اس کی شرائط اور فلسفے سے آگاہی نہیں رکھتے۔
 اس میں شک نہیں کہ بعض مواقع ایسے بھی ہیں جہاں تقیہ اختیار کرنا حرام ہے مثلاً جہاں تقیہ اسلامی قوتوں کی حفاظت کی بجائے مکتب دین کی نابودی یا اس کے لیے خطرے کا باعث ہو یا اس سے کسی بڑے فساد برائی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ایسے مواقع پر تقیہ کا بند توڑ دینا چاہیے اور اس سے جا نتائج برآمد ہوں انھیں قبول کر لینا چاہیے۔۲؎
 ۲۔ فطری و ملی مرتد اور فریب خوردہ لوگ: جن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو ان کے بارے میں اسلام سخت گیری نہیں کرتا (ہماری مراد اہلِ کتاب سے ہے)۔ اسلام انھیں پیہم دعوت اور منطقی تبلیغ کے ذریعے اپنی طرف بلاتا ہے اگر وہ اسے قبول نہ کریں اور ذمیوں کی شرائط پر مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیں تو اسلام نہ صرف انھیں
-----------------------------------------------------
۱؎ وسائل الشیعہ جلد ۱۱ حدیث ۶ باب ۲۶، امر با المعروف کے ابواب میں سے۔
۲؎ تقیہ کے بارے میں مکمل وضاحت اس کے احکام، فلسفلہ اور مختلف مدارک کے لیے ہماری 
 کتاب ’’القواعد الفقہ‘‘ کی تیسری جلد کی طرف رجوع فرمائیں۔
-----------------------------------------------------
امان دیتا ہے بلکہ ان کے مال وجان اور جائز مفادات کی حفاظت اپنے ذمے لیتا ہے۔
 لیکن جو لوگ اسلام قبول کر لیں اور پھر اس سے پھر جائیں اسلام کا رویہ ان کے بارے میں نہایت سخت ہے کیونکہ یہ عمل اسلامی معاشرے کو متزلزل کرنے کا سبب بنتا ہے یہ عمل حکومت اسلامی اور اس کے طریقے کے خلاف ایک قسم کا قیام شمار ہوتا ہے اور اکثر اوقات یہ عمل بد نیتی کی دلیل ہوتا ہے اور سبب بنتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے راز دشمنوں کے ہاتھ جا لگیں۔
 بہر حال مرتد فطری وہ ہے کہ جس کا حمل ٹھہرتے وقت اس کے ماں باپ میں سے کوئی مسلمان تھا یا آسان لفظوں میں جو مسلمان زادہ ہے اور پھر وہ اسلام سے پھر جائے اور اسلامی عدالت میں یہ امر ثابت ہو جائے تو اسلام اس کے خون کو مباح سمجھتا ہے اس کے اموال اس کے وارثوں میں تقسیم ہونے چاہییں۔ اس کی بیوی کے لیے حکم ہے کہ وہ اس سے الگ ہو جائے اور ظاہراً اس کی توبہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ یعنی یہ تینوں احکام ایسے شخص پر ہر حالت میں نافذ ہوں گے لیکن اگر وہ واقعی پشیمان ہوں تو بارگاہ ِ الٰہی میں اس کی توبہ قبول ہوگی (البتہ اگر عورت اس جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی توبہ مطلقاً قبول کی جائے گی)۔
اسلام سے پھرنے والا اگر مسلمان زادہ نہ ہو تو اسے توبہ کا موقع دیا جائے گا اب اگر وہ توبہ کرلے وہ قابلِ قبول ہوگی اور اس کے لیے تمام سزائیں ختم ہو جائیں گی۔
 جو لوگ اصل مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں ہو سکتا ہے وہ مرتد فطری کے بارے میں اس سیاسی حکم کو سختی، عقیدے کا ٹھونسنا اور آزادی فکر سلب کرنا قرار دیں لیکن انھیں چاہیے کہ وہ اس حقیقت کی طرف غور کریں کہ یہ احکام اس شخص کے بارے میں نہیں ہیں جو باطنی طور پر یہ عقیدہ رکھتا ہے اس اس کا اظہار نہیں کرتا۔ یہ احکام تو صرف اس شخص کے بارے میں ہیں جو اظہار کرے اور پراپیگینڈا کرے۔ یعنی دراصل وہ موجود حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتا ہے اس امر پر غور سے واضح ہو جائےگا کہ یہ سختی بلاوجہ نہیں ہے یہ مسئلہ آزادی فکرونظر کے بھی منافی نہیں ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا بہت سے مشرقی اور مغربی ممالک میں اس سے ملتے جلتے قوانین موجود ہیں۔
 اس سلسلے میں اسلام کی نظر اس نکتے پر بھی ہے کہ اسلام کو منطق اور دلیل کے ساتھ قبول کیا ہو۔ خاص طور پر جو شخص مسلمان باپ یا ماں سے پیدا ہوا ہو اور اس نے اسلامی ماحول میں پرورش پائی ہو اس کے لیے بہت بعید ہے کہ اس نے مفہوفِ اسلام کو نہ پہچانا ہو۔ لہذا ایسے شخص کا پھر جانا اشتباہ اور ادراک حقیقت نہ کرنے کی نسبت سازش اور  خیانت سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے اور ایسا شخص ایسی ہی سزا کا مستحق ہے۔
 ضمناً یاد رکھیں کہ احکام ایک یا دو افراد کے ہرگز تابع نہیں ہوتے اس کے لیے مجموعی اور کلی صورتِ حال کو نظر رکھنا چاہیے۔۱؎
-----------------------------------------------------
۱؎ ’’من کفر با للہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس جملے کی ترکیب کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
-----------------------------------------------------
   (باقی حاشیہ پچھلے صفحہ کا)
بعض اسے اس سے پہلے جملے کی تشریح و توضیح سمجھتے ہیں۔ بزبان اصطلاح یہ ’’الذین لا یؤمنون باٰیات اللہ‘‘ کا بدل ہے۔
بعض اسے محذوف الخبر مبتداء خیال کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس کی تقدیر اس طرح تھی:-
 من کفر با للہ من بعد ایمانہ فعلیھم غضب من اللہ ولھم عذاب عظیم
 اور حقیقت میں یہ جزائے شرط محذوف ہے کیونکہ بعد والا جملہ اس پر دلالت کرتا ہے۔
 اس کے بارے میں چوتھا احتمال بھی ہے کہ جو سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس مبتداء کی خبر وہی ہے کہ جو خود آیت میں آئی ہے اور محذوف نہیں ہے اور ’’لکن من شرح بلکفر صدراً‘‘ مبتداء کی نئے سرے سے توضیح ہے کیونکہ جملہ استثنائیہ نے مبتداء اور خبر کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔ ایسی تعبیرات دوسری زبانوں کے ادب میں بھی نظر آتی ہیں مثلاً فارسی زبان میں ہم کہیں گے۔
 ’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائے البتہ ان افراد کے استثناء کے ساتھ کہ جو دباؤ کی وجہ سے ایسا کریں اور ان کا دل ایمان سے معمور ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں؛ ایسے لوگ کہ جو اسلام کے بعد کافر ہوں ان پر اللہ کا غضب ہوگا‘‘۔  (غور کیجیے گا)
  -----------------------------
  -----------------------------