Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند اہم نکات

										
																									
								

Ayat No : 98-100

: النحل

فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ۹۸إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ۹۹إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ ۱۰۰

Translation

لہذا جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان هرجیم کے مقابلہ کے لئے اللہ سے پناہ طلب کریں. شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان هایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے. اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں.

Tafseer

									چند اہم نکات:
 1۔ شناخت کی رکاوٹیں: حقیقت کا چہرہ کتنا ہی آشکار، درخشاں اور واضح کیوں نہ ہو جب تک نگاہِ بینا کے سامنے نہ ہو اس کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقائق کی شناخت کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک چہرٍہٗ حق کا آشکار اور واضح ہونا اور دوسرا نظر اور قوتِ ادراک کا ہونا۔
کیا کبھی کوئی نابینا سورج کو دیکھ سکتا ہے؟ کیا بہرہ شخص عالمِ ِامکان کے دل نواز نغمے سن سکتا ہے؟ اسی طرح جو لوگ نگاہِ حق بیں نہیں رکھتے وہ چہرہٓ حقیقت دیکھنے سے محروم ہیں۔ اور جو حق بات سننے والے کان نہیں رکھتے، وہ آیات نہیں سن سکتے۔
وہ کون سی رکاوٹ ہے کہ جس کے باعث انسان قوتِ شناخت کھو بیٹھتا ہے:
اس میں شک نہیں کہ پہلے سے کیے ہوئے غلط فیصلے، نفسانی ہواوہوس، اندھے انتہائی تعصبات، خودغرضی اور غرور حقیقت شناسی کے لیے سب سے پہلے درجے پر رکاوٹ بنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ چیز جو انسان کے دل کی صفائی اور روح کی پاکیزگی کو درہم برہم کر دے اور انسان کے باطن کو تیرہ و تار کر دے۔ ادراکِ حقیقت میں مانع ہے۔
 جمال یار ندارد حجاب و پردہ دلی
  غبارِ رہ بنشاۃ تا نظر توانی کرد
جمالِ یار پر تو کوئی پردہ اور حجاب نہیں لیکن اگر تو نظارہٓ رخِ یار کرنا چاہتا ہے تو راستے میں جو غبار حائل ہے پہلے اسے ہٹھا دے۔
    
  تانفس میرازنواہی نشود
   داںِ آئینہ نورالٰہی نشود
 جب تک نفس نواہی اور نافرمانی سے پاک نہ ہوجائے،دل دل نورالٰہی کا آئینہ نہیں بن سکتا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایک حدیث میں ہے:
 لولا ان الشیاطین یحعمون حول قلوب بنی اٰدم ننظروا الی ملکوت
 السمٰوٰت
 اگر اولاد آدم کے دلوں کے گردِ شیطان محوِ گردش نہ ہوتے تو انسان ملکوت ِ آمانی کو دیکھ سکتے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ راہِ حق کے مسافروں کے لیے پیلی شرط تہذیب ِ نفس اور تقوٰی ہے اس کے بغیر انسان وہم کی تاریکیوں اور بے راہ رویوں میں سرگرداں رہتا ہے۔ یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے:
 ھدیً للمتقین
 یہ آیات الٰہی پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہیں۔
یہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
ہم نے بہت دیکھا ہے کہ جو لوگ تعصب، ہٹ دھرمی اور پہلے سے کیے گئے انفرادی یا گروہی فوصلوں کے ساتھ آیاتِ قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ قرآن سے ادراک حقیقت کی بجائے اپنی خواہشوں کو ان پر ٹھونس دیتے ہیں با لفاظ دیگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ وہ چاہتے قرآن میں تلاش کرتے ہیں، وہ کچھ نہیں ڈھونڈھتے جو اللہ نے بیان کیا ہے اس طرح بجائے اس کے کہ قرآن ان کی ہدایت کا سبب بنے ان کے انحراف میں اضافہ ہو جاتا ہے البتہ قرآن ایسا نہیں کرتا بلکہ ان کی سرکش ہوووہوس اس کا سبب بنتی ہے۔
 ارشادِ الٰہی ہے:
 فَاَمَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فَزَادَتْـهُـمْ اِيْمَانًا وَّهُـمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ وَاَمَّا الَّـذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْـهُـمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِـمْ وَمَاتُوْا وَهُـمْ كَافِرُوْنَ
 جو لوگ ایمان لائے ہیں آیات ِ قرآنی ان کے ایمان میں اضافہ کرتی ہیں اور وہ مسرور ہوتے ہیں۔ جبکہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی ناپاکی میں اور ناپاکی کا اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ دنیا سے حالتِ کفر میں جاتے ہیں۔
   (توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 124،125)
لہذا بالصراحت کہنا چاہیے کہ زیر بحث آیت کا یہ مقصد نہیں کہ صرف ’’اعوذ با للہ من الشیطان الرجیم‘‘ پڑھ لیا جائے اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ضروری ہے کہ یہ ذکر فکر میں بدل جائے اور فکر احساس میں ڈھل جائے اور ہر آیت پڑھتے ہوئی خدا سے پناہ مانگیں کہ کہیں کوئی شیطانی وسوسہ ہمارے اور حیات بخش کلامِ الٰہی میں حائل نہ ہو جائے۔

2۔ شیطان کو ہیاں ’’رجیم‘‘ کیوں کہا گیا ہے؟ ’’رجیم‘‘ رجم کے مادہ سے دھتکارے ہوئے کے معنی میں ہے اور اصل میں یہ لفظ پھتر مارنے کے معنی میں ہے بعد ازاں دھتکارا ہوا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے یہ ذکر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خداتعالی نے جب شیطان کو دعوت دی کہ وہ آدم کے سامنے سجدہ کرے تو اس نے تکبر کیا اس کا یہ تکبر سبب بنا کہ ادراکِ حقائق اور اس کے درمیان پر وہ حائل ہوگیا ہیاں تک کہ وہ اپنے آپ کو آدم سے برتر خیان کرنے لگا اور کہنے لگا کہ:
 میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
ہیاں تک کہ اس سرکشی اور غرور کے باعث اس نے فرمانِ خدا پر اعتراض کردیا ایسا اعتراض کہ جو اس کے کفر اور راندہٓ درگاہ ہونے کا باعث بنا۔
ہیاں ’’رجیم‘‘ کی تعبیر استعمال کر کے قرآن گویا یہ حقیقت سمجھانا چاہتا ہے کہ تلاوتِ قرآن کے وقت تکبر اور تعصب کو اپنے آپ سے دور رکھو تا کہ کہیں شیطانِ رجیم جیسا حال نہ ہو جائے اور کہیں ادراک حقیقت کی بجائے کفروبےایمانی کے گڑھے میں نہ جاگرو۔

3۔ گروہِ حق اور گروہِ شیطان: زیر بحث آیات میں لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروہ شیطان کے زیر تسلط ہے اور دوسرا اس کے تسلط سے خارج ہے ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کی دو دو صفات بیان کی گئی ہیں۔
 جولوگ شیطان کے تسلط سے باہر ہیں وہ با ایمان ہیں اور توکل علی اللہ کے حامل ہیں یعنی عقیدے کے لحاظ سے صرف خدا پرست ہیں اور عمل کے لحاظ سے ہر چیز کے بارے میں خدا پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کا سہارا نہ کمزور انسان ہیں نہ ہواوہوس نہ تعصب اور نہ ہٹ دھرمی۔
 لیکن جو شیطان کے کنٹرول میں ہیں اولاً اس کی رہبری پر اعتقاد رکھتے ہیں ’’یتولونہ‘‘
ثانیاً عمل کے لحاظ سے اسے اطاعتِ خدا کا شریک سمجھتے ہیں یعنی عملی طور پر اس کے مطیعِ فرمان ہیں۔
 البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو اپنے آپ کو پہلے گروہ میں شمار کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ترتیب کنندگانِ الٰہی سے دور ہونے، غلط ماحول میں رہنے یا دیگر وجوہات کے باعث دوسرے گروہ میں جا پڑتے ہیں۔
 بہر حال زیر بحث آیات ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی تاکید کرتی ہیں کہ انسانوں پر شیطانو کا تسلط جبری اور بے اختیاری کی بناء پر نہیں بلکہ یہ انسان ہی ہے جو اسے اپنے اوپر تسلط کے حالات فراہم کرتا ہے اور اس کے لیے دل کے دروازے کھول دیتا ہے۔

4. تلاوتِ قرآن کے آداب: ہر کام کے لیے ایک طرزِ ِ عمل کی ضرورت ہے خصوصاً قرآن جیسی عظیم کتاب سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی انداز اور آداب درکار ہیں اسی بنا پر قرآنی آیات کی تلاوت اور ان سے استفادہ کرنے کے آداب و شرائط خود قرآن میں بتائے گئے ہیں، مثلاً:
 ۱۔ لا یمسہ الا المطھرون
 پاک لوگوں کے علاوہ کوئی قرآن کو نہیں چھوتا۔
 ہو سکتا ہے یہ تعبیر ظاہری پاکیزگی کی طرف اشارہ ہو۔ یعنی قرآن کے الفاظ اور سطروں کو طہارت اور وضو کے بغیر مس نہ کیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس طرف اشارہ ہو کہ ان آیات کے مضامین و مفاہیم کا ادراک صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اخلاقی برائیوں سے پاک ہوں کیونکہ بری صفات انسان کی حقیقت بیں نگاہوں پر پردہ ڈال دیتی ہیں کہ جس کے باعث وہ جمالِ حق کے مشاہدے سے محروم ہو جاتا ہے۔
 ۲۔ آغازِ تلاوتِ قرآن کے وقت راندہٓ درگاہِ حق شیطان سے خدا کی پناہ طلب کی جائے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیات میں ہے:۔
 فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّـٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْـمِ
 ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اس حکم پر کیسے عمل کیا جائے اور کیا کہا جائے، آپ نے فرمایا:
 امستعید بالسمیع العلیم من الشیطان الرجیم
 میں شیطانِ مردود سے سمیع و علیم خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ امام علیہ السلام نے سورہٓ الحمد کی تلاوت کے وقت فرمایا:
 اعوذ با للہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم، واعوذ با للہ ان یحضرون
 میں شیطان مردود سے سمیع و علیم خدا کی پناہ مانگتا اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس امر کے بارے میں کہ وہ (شیطان) میرے پاس آئیں۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ پناہ طلبی فقط زمان اور الفاظ تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے روح کی گہرائیوں میں اترنا چاہیے اور تلاوتِ قرآن کے وقت شیطانی عادات سے دور اور الٰہی صفات کے قریب ہونا چاہیے تا کہ وہ رکاوٹیں انسان کی فکر سے دور ہو جائیں جو کلامِ حق کے سمجھنے میں حائل ہو جاتی ہیں اور حقیقت کے جمالِ دل آراء کو نظروں سے اوجھل کر دیتی ہیں یہ ہی وجہ سے کہ آغازِ تلاوت کے وقت بھی شیطان سے خدا کی پناہ طلب کرنا بھی ضروری ہے اور تلاوت کے دوران میں بھی مسلسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ زبان سے نہ ہو۔
 ۳۔ تلاوت بصورت ترتیل کرنا چاہیے یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور غور و فکر کے ساتھ۔ ارشادِ الٰہی ہے:
 ورتل القراٰن ترتیلا   (مزمل ۔ ۴)

ایک اور حدیث میں ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
 ان القراٰن لا یقرء ھذرمۃ، ولٰکن یرتل ترتیلا، اذا صورت بایۃ ضیھا ذکر النار
 وقفت عندھا، وتعوذت با للہ من النار۔
 قرآن کو جلدی جلدی اور اس کے اعضاء شکستہ کر کے نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ اس کی تلاوت سکون و اطمینان سے کرنا چاہیے۔ جب تم تلاوت کرتے ہوئے کسی ایسی آیت تک پہنچو کہ جس ترتیل کے علاوہ قرآنی آیات میں تدبر و تفکر کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
 افلا یتدبرون القراٰن۔
 کیا وہ قرآن میں سوچ بچار نہیں کرتے۔ (نساء۔۔۔۔۔۔۔ ۸۲)
ایک حدیث میں ہے کہ اصحابِ رسول آنحضرت ﷺ سے قرآن کی دس دس آیتیں سیکھتے تھے اور جب تک پہلی آیات میں جو علم و عمل ہوتا اسے جان نہ لیتے مزید دس آیات نہ سیکھتے۔۱؎

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
 اعربوا القراٰن والتمسوا غرائبہ
 قرآن کو فصیح طریقے سے اور واضح کر کے پڑھو اور اس کے حیران کن مفاہیم کو تلاش کرو۔ ۲؎
نیز ایک حدیث امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:
 لقد تجلی اللہ لخلقہ فی کلامہ ولکنھم لا یبصرون۔
خدا نے اپنے کلام میں اپنی ذات کی تجلی رکھی ہے لیکن دلوں کے اندھے نہیں دیکھتے۔۳؎
یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف آگاہ، روشن ضمیر اور غور و فکر کرنے والے اہلِ ایمان اس کے کلام میں اس کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
 ۵: جو لوگ آیات قرآن کو سنیں ان کا بھی ایک فریضہ ہے اور وہ یہ کہ خاموشی اختیار کریں ایسی خاموشی کہ جس میں وہ سنیں بھی اور غور و فکر بھی کریں۔ ارشاد ِ الٰہی ہے:
 وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَـهٝ وَاَنْصِتُـوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَـمُوْنَ
جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔ تا کہ تم پر اللہ تعالی کی
----------------------------------------------------
۱؎ بحار۔ جلد 92 ص 106.
۲؎ بحار۔ جلد 92 ص 106.
۳؎ بحار۔ جلد 92 ص 107.
----------------------------------------------------

رحمت ہو۔   (اعراف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 204)

   --------------------
 ان کے علاوہ بھی اسلامی روایات میں آدابِ قرآن کے بارے میں کئی احکام موجود ہیں مثلاً اسے اچھے لحن سے پڑھنا کیونکہ اچھی آواز بھی یقینی طور پر اس کے مفاہیم کے بارے میں ایک نفسیاتی تاثیر پیدا کرتی ہے۔ البتہ یہ موقع نہیں کہ ہم اس بات کی تفصیل میں جائیں۔ ۱؎
   ----------------------------
   ----------------------------
   ----------------------------
---------------------------------------------------------
۱؎ مزید معلومات کے لیے بحار الانوار جلد 9 ص 190 کی طرف رجوع فرمائیں۔
---------------------------------------------------------