Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ حضرت نوح (علیه السلام) اپنے بیٹے کے بارے میں کیوں کر متوجہ نہ تھے؟

										
																									
								

Ayat No : 45-47

: هود

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ۴۵قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ۴۶قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۴۷

Translation

اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے. ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیں ہے یہ عمل هغیر صالح ہے لہذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے -میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تمہارا شمار جاہلوں میں نہ ہوجائے. نوح نے کہا کہ خدایا میں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس چیز کا سوال کروں جس کا علم نہ ہو اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے گا اور مجھ پر رحم نہ کرے گا تو میں خسارہ والوں میں ہوجاؤں گا.

Tafseer

									مندرجہ بالا آیت میں حضرت نوح (علیه السلام) کی گفتگو اور خدا کی طرف سے انھیں دئےے گئے جواب کی طرف توجہ کرنے سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام) اس مسئلے کی طرف کیوں کر متوجہ نہ تھے کہ وعدہ الٰہی میں ان کا بیٹا شامل نہیں ۔
اس سوال کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ اس بیٹے کی کیفیت پوری طرح سے واضح نہ تھی کبھی وہ مومنین کے ساتھ ہوتا اور کبھی کفار کے ساتھ، اس کی منافقانہ چال ہر شخص کو ظاہراًاشتباہ میں ڈال دیتی تھی ۔
علاوہ ازیں اپنے بیٹے سے متعلق حضرت نوح (علیه السلام) کو شدید احساس مسئولیت تھا، پھر فطری اور طبعی لگاؤ بھی تھا جو ہر اباپ کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے اور انبیاء بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں یہی سبب ہے کہ آپ نے اس قسم کی درخواست کی لیکن جب آپ حقیقی صورت حال سے آگاہ ہوئے تو فوراً درگاہ خداوندی میں عذرخواہی اور طلب عفو کی اگرچہ آپ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا لیکن نبوت کے مقام اور حیثیت کا تقاضا تھا کہ آپ اپنی گفتارورفتار میں اس سے زیادہ متوجہ ہوتے، اتنی عظیم شخصیت ہونے کے باعث یہ آپ کا ترک اولیٰ تھا، اسی وجہ سے آپ نے بارگاہ خداوندی میں بخشش کا تقاضا کیا ۔
یہیں سے ایک اور سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا اور وہ یہ کہ کیا انبیاء گناہ کرتے ہیں جب کہ وہ بخشش کی دعا کرتے ہیں ۔