۱۔ معاشرے کی پاکیزگی نہ کہ انتقام:
وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ۳۶وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ۳۷وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ۳۸فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ ۳۹
اور نوح کی طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے اب کوئی ایمان نہ لائے گا علاوہ ان کے جو ایمان لاچکے لہذا تم ان کے افعال سے رنجیدہ نہ ہو. اور ہماری نگاہوں کے سامنے ہماری وحی کی نگرانی میں کشتی تیار کرو اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرو کہ یہ سب غرق ہوجانے والے ہیں. اور نوح کشتی بنارہے تھے اور جب بھی قوم کی کسی جماعت کا گزر ہوتا تھا تو ان کا مذاق اڑاتے تھے -نوح نے کہا کہ اگر تم ہمارا مذاق اڑاؤ گے تو کل ہم اسی طرح تمہارا بھی مذاق اڑائیں گے. پھر عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جس کے پاس عذاب آتا ہے اسے رسوا کردیا جاتا ہے اور پھر وہ عذاب دائمی ہی ہوجاتا ہے.
مندرجہ بالا آیات سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ خدائی عذاب انتقامی پہلو نہیں رکھتا بلکہ نوع بشر کی پاکیزگی اور ایسے لوگوں کے خاتمے کے لئے ہے جو زندگی کے اہل نہیں ، اس طرح نیک لوگ باقی رہ جاتے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک متکبر اور فاسد ومفسد قوم جس کے ایمان لانے کی اب کوئی امید نہیں، نظام خلقت کے لحاظ سے اب جینے کا حق نہیں رکھتی اور اسے ختم ہوجا نا چاہیئے قوم نوح ایسی ہی تھی کیونکہ مندرجہ بالا آیات کہتی ہیں کہ اب جب کہ باقی لوگوں کے ایمان لانے کی امید نہیں ہے کشتی بنانے کے لئے تیار ہوجاؤ اور ظالموں کے لئے کسی قسم کا کی شفاعت اور معافی کاتقاضا نہ کرو۔
یہی صورت حال اس عظیم پیغمبر کی بد دعا اور نفرین سے بھی معلوم ہوتی ہے جو کہ سورہ نوح میں موجود ہے:
وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا إِنَّکَ إِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلَایَلِدُوا إِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا
پروردگارا! ان کفار میں سے کسی ایک کو بھی زمین پر نہ رہنے دے کیونکہ اگر وہ رہ جائیں تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے بھی فاسق وفاجر اور بے ایمان کافروں کے سوا کوئی وجود میں نہیں آئے گا، (نوح، ۲۶،۲۷) ۔
اصولی طور پر کارخانہ تخلیق میں ہر موجود کسی مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے، جب کوئی موجود اپنے مقصد سے بالکل منحرف ہوجائے اور اصلاح کے تمام راستے اپنے لئے بند کرلے تو اس کا باقی رہنا بلا وجہ ہے لہٰذا اسے خواہ مخواہ ختم ہوجانا چاہیئے، بقول شاعر:
نہ طراوتی نہ برگی نہ میوہ دارم
متحرم کہ دھقان بہ چکارہشت مارا
نہ مجھ میں تازگی ہے ، نہ مجھ پر پتے ہیں، نہ پھول اور نہ پھل ہیں، حیران ہوں کہ کسان نے مجھے کیوں چھوڑ رکھا ہے ۔