۳۔ ایک اشکال کی وضاحت
وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ۲۹وَيَا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ۳۰وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنْفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ ۳۱
اے قوم میں تم سے کوئی مال تو نہیں چاہتا ہوں -میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور میں صاحبان هایمان کو نکال بھی نہیں سکتا ہوں کہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصور کررہا ہوں. اے قوم میں ان لوگوں کو نکال باہر کردوں تو اللہ کی طرف سے میرا مددگار کون ہوگا کیا تمہیں ہوش نہیں آتا ہے. اور میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہیں اور نہ ہر غیب کے جاننے کا دعوٰی کرتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ تمہارے نگاہوں میں ذلیل ہیں ان کے بارے میں یہ کہتا ہوں کہ خدا انہیں خیر نہ دے گا -اللہ ان کے دلوں سے خوب باخبر ہے -میں ایسا کہہ دوں گا تو ظالموں میں شمار ہوجاؤں گا.
صاحب المنار کی طرح بعض مفسّرین اس آیت تک پہنچے ہیں تو وہ ان لوگوں کی طرف جو غیر خدا کے لئے علمِ غیب کے قائل ہیں یا ان سے اپنی مشکلات کا حل چاہتے ہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختصراً کہتے ہیں کہ یہ دو چیزیں (علمِ غیب اور خزائنِ الٰہی) ایسی ہیں جن کی قرآن نے انبیاء سے نفی کی ہے لیکن مسلمانوں اور اہلِ کتاب میں سے بدعتی اولیاء اور قدیسین کے لئے ان امور کے قائل ہیں ۔ (1)
۳۲ قَالُوا یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَاٴَکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَاٴْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ
۳۳ قَالَ إِنَّمَا یَاٴْتِیکُمْ بِہِ اللهُ إِنْ شَاءَ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ
۳۴ وَلَایَنفَعُکُمْ نُصْحِی إِنْ اٴَرَدْتُ اٴَنْ اٴَنصَحَ لَکُمْ إِنْ کَانَ اللهُ یُرِیدُ اٴَنْ یُغْوِیَکُمْ ھُوَ رَبُّکُمْ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ
۳۵ اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ إِنْ افْتَرَیْتُہُ فَعَلَیَّ إِجْرَامِی وَاٴَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تُجْرِمُونَ
ترجمہ
۳۲۔ انھوں نے کہا: اے نوح! تُو نے ہم سے بہت بحث وتکرار کی اور بڑی باتیں کیں اب (بس کرو) اگر سچ کہتے ہو تو جس (عذابِ الٰہی) کا ہم سے وعدہ کرتے ہو اسے لے آوٴ۔
۳۳۔ (نوح نے جواباً کہا: اگر خدا نے ارادہ کرلیا تو لے آئے گا پھر تم میں فرار کی طاقت نہ ہوگی ۔
۳۴۔ (لیکن کیا فائدہ کہ) جب خدا چاہے تمھیں (تمھارے گناہوں کی وجہ سے) گمراہ کردے اور مَیں تمھیں نصیحت کروں تو پھر تمھیں کوئی فائدہ نہ دے گی، وہ تمھارا پروردگار ہے اس کی طرف لوٹ کر جاوٴگے ۔
۳۵۔ (مشرکین) کہتے ہیں: وہ (محمد) خدا کی طرف ان باتوں کی غلط نسبت دیتا ہے ۔کہہ دو: اگر میں نے تمھیں اپنی طرف سے گھڑا ہے اور اس کی طرف نسبت دیتا ہوں تو اس کا گناہ میرے ذمہ ہے لیکن میں تمھارے گناہوں سے بیزار ہوں ۔
1-اگر موصوف کی مراد یہ ہے کہ وہ ان سے ہر قسم کے علمِ غیب کی نفی کرے چاہے وہ تعلیمِ الٰہی سے ہو تو یہ بات قرآن مجید کی صرح نصوص کے خلاف ہے اور اگر مقصود انبیاء اور اولیاء سے توسل کی اس معنی میں نفی ہے کہ وہ خدا سے ہماری مشکلات کے حل کے لئے دعا اور خواہش کریں تو یہ بات آیا قرآن اور شیعہ سنّی مسلمہ احادیث کے خلاف ہے ۔