Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ معیارِ فضیلت

										
																									
								

Ayat No : 29-31

: هود

وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ۲۹وَيَا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ۳۰وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنْفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ ۳۱

Translation

اے قوم میں تم سے کوئی مال تو نہیں چاہتا ہوں -میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور میں صاحبان هایمان کو نکال بھی نہیں سکتا ہوں کہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصور کررہا ہوں. اے قوم میں ان لوگوں کو نکال باہر کردوں تو اللہ کی طرف سے میرا مددگار کون ہوگا کیا تمہیں ہوش نہیں آتا ہے. اور میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہیں اور نہ ہر غیب کے جاننے کا دعوٰی کرتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ تمہارے نگاہوں میں ذلیل ہیں ان کے بارے میں یہ کہتا ہوں کہ خدا انہیں خیر نہ دے گا -اللہ ان کے دلوں سے خوب باخبر ہے -میں ایسا کہہ دوں گا تو ظالموں میں شمار ہوجاؤں گا.

Tafseer

									ان آیات میں ہم دوبارہ اس حقیقت کو دیکھ رہے ہیں کہ اہلِ اقتدار، سرمایہ دار اور دنیا پرست مادی لوگ جو تمام چیزوں کو اپنے افکار کے دریچے سے اسی مادی حوالے سے دیکھتے ہیں ان کی نظر کسی مقام و احترام دولت ومنصب کے حوالے سے ہوتا ہے لہٰذا یہ بات کوئی باعثِ تعجب نہیں کہ وہ تہی دست سچّے مومنین کو ”اراذل“ (پست) قرار دیں اور ان کی طرف حقارت سے دیکھیں ۔
یہ امر قومِ نوح ہی میں منحصر نہیں کہ وہ مستضعفین مومنین خصوصاً انقلابی نوجوانوں کو جو آپ کے گرد وپیش تھے بے وقوف، کوتاہ فکر اور بے وقعت سمجھتے تھے بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہی منطق دوسرے انبیاء، خصوصاً پیغمبر اسلام اور پہلے مومنین کے بارے میں موجود تھی، آج بھی ہم یہی صورت دیکھتے ہیں، فرعون صفت مستکبرین اپنی شیطانی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے سچّے مومنین کو ایسے ہی متہم کرتے ہیں، وہ تاریخ کو دُہراتے ہوئے اپنے مخالفین کو ایسے القابات ہی سے یاد کرتے ہیں ۔
لیکن ایک بُرا ماحول ایک خدائی انقلاب کے ذریعے پاک ہوجائے تو شخصیت شناسی کے ایسے معیار بھی دیگر موہوم چیزوں کے ساتھ تاریخ کے کوڑادان میں پھینک دیئے جاتے ہیں اور ان کی جگہ اصلی اور انسانی معیار لے لیتے ہیں، وہ معیار کہ جن پر زندگی کا متن برقرار ہے، جن پر عینی حقائق استوار ہیں اور جن سے ایک پاک، آباد اور آزاد معاشرہ استفادہ کرتا ہے مثلاً ایمان، علم، آگہی، ایثار، تقویٰ، پاکدامنی، شہادت، شجاعت، تجربہ، بیداری، مدیریت اور نظم ونسق کی صلاحیت وغیرہ۔