Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ ”فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ“میں مخاطب:

										
																									
								

Ayat No : 17

: هود

أَفَمَنْ كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ۱۷

Translation

کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا گواہ بھی ہے اور اس کے پہلے موسٰی کی کتاب گواہی دے رہی ہے جو قوم کے لئے پیشوا اور رحمت تھی -وہ افترا کرے گا بیشک صاحبانِ ایمان اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کاٹھکانہ جہنم ّہے تو خبردار تم اس قرآن کی طرف سے شک میں مبتلا نہ ہونا -یہ خدا کی طرف سے برحق ہے اگرچہ اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ہیں.

Tafseer

									”فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ“میں مخاطب کون ہے، اس بارے میں دو احتمال ذکر کئے گئے ہیں:
پہلا احتمال یہ کہ پیغمبر ارکم ہیں یعنی قرآن یا آئین اسلام کی حقانیت میں ذرہ بھر شک کوراہ نہ دیجئے ۔ البتہ اس حکم کی رُو سے کہ وہ وی کو بطورِ شہود دیکھتے تھے اور خدا کی طرف سے نزولِ قرآن ان کے لئے محسوس طور پر بلکہ حِس سے بھی بالا تھا، آپ کو اس دعوت کی حقانیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہ تھا لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ قرآن میں خطاب تو پیغمبر اکرم سے ہے جبکہ مراد تمام لوگ ہیںاور عربوں کی مشہور تعبیر کے مطابق ایسے خطاب ” ”ایّاک اعنی واسمعی یا جارة“ (میری مراد تو تم ہو اور پڑوسن تم بھی سُن لو)کی طرح کے ہیں ۔ 
فارسی میں کہتے ہیں: 
در بہ توگویم دیوار تو گوش کن یا تو بشنو
اے دروازہ! مَیں تجھے کہہ رہا ہوں، دیوار! تُو سن لے ۔
یہ فنونِ لاغت میں سے ہے کہ کئی مواقع پر تاکید اور اہمیّت کے لئے یا دیگر مقاصد کے لئے حقیقی مخاطب کے بجائے دوسرے شخص سے خطاب کیا جاتا ہے ۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر مکلف عاقل مخاطب ہے یعنی ”فلا تک ایھا المکلف العاقل فی مریة“ یعنی اے عاقل ومکلف انسان! ان واضح دلائل کے ہوتے ہوئے اس قرآن کی حقانیت میں شک نہ کر“ اور یہ احتمال اس بناء پر ہے کہ ”من کان علی بیّنة من ربّہ“ سے مراد پیغمبر نہ ہوں بلکہ تمام سچّے مومنین ہوں (غور کیجئے گا)
لیکن بہرحال پہلی تفسیر آیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے ۔


۱۸ وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا اٴُوْلٰئِکَ یُعْرَضُونَ عَلیٰ رَبِّھِمْ وَیَقُولُ الْاٴَشْھَادُ ھٰؤُلَاءِ الَّذِینَ کَذَبُوا عَلیٰ رَبِّھِمْ اٴَلَالَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ
۱۹ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَیَبْغُونَھَا عِوَجًا وَھُمْ بِالْآخِرَةِ ھُمْ کَافِرُونَ
۲۰ اٴُوْلٰئِکَ لَمْ یَکُونُوا مُعْجِزِینَ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا کَانَ لَھُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ یُضَاعَفُ لَھُمَ الْعَذَابُ مَا کَانُوا یَسْتَطِیعُونَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوا یُبْصِرُونَ
۲۱ اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ
۲۲ لَاجَرَمَ اٴَنَّھُمْ فِی الْآخِرَةِ ھُمَ الْاٴَخْسَرُونَ
ترجمہ
۱۸۔ ان لوگوں سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا پر افتراء باندھتے ہیں وہ (روز قیامت) اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے اور شاہد (انبیاء اور فرشتے) کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا، خدا کی لعنت ہو ظالموں پر۔
۱۹۔ وہی لوگوں کو راہِ خدا سے روکتے تھے اور راہِ حق میں کجی دکھانا چاہتے تھے اور آخرت کا کفر کرتے تھے ۔
۲۰۔وہ زمین میںکبھی بھی فرار کی طاقت نہیں رکھتے اور خدا کے سوا کوئی دوست اور سرپرست نہیں پائیں گے ان کے لئے کئی گُنا عذاب الٰہی ہوگا (کیونکہ وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچتے تھے) اور کبھی کبھی (حق بات) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور (حقائق کو) نہیں دیکھتے تھے ۔
۲۱۔ وہ ایسے لوگ جو اپنا سرمایہٴ ہستی گنوا بیٹھے ہیں اور جھوٹے معبود ان کی نظر سے کھوگئے ہیں ۔
۲۲۔ (اسی بناء پر)یقیناً وہ آخرت میں سب سے زیادہ زیاںکار ہیں ۔