Tafseer e Namoona

Topic

											

									  انفجرت اور انبجست میں فرق

										
																									
								

Ayat No : 60

: البقرة

وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ۶۰

Translation

اور اس موقع کو یاد کرو جب موسٰی علیھ السّلام نے اپنی قوم کے لئے پانی کا مطالبہ کیا تو ہم نے کہا کہ اپنا اعصا پتھر پر مارو جس کے نتیجہ میں بارہ چشمے جاری ہوگئے اور سب نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا. اب ہم نے کہا کہ من وسلوٰی کھاؤ اور چشمہ کا پانی پیو اور روئے زمینمیں فساد نہ پھیلاؤ.

Tafseer

									 زیر بحث آیت میں ” انفجرت “ استعمال ہوا ہے جب کہ سورہ اعراف آیہ ۱۶ میں اس کی جگہ ” انبجست “ آیا ہے پہلے کا معنی ہے پانی کا سخت بہاؤ اور دوسرے کا معنی ہیں تھوڑا تھوڑا اور آرام سے جاری ہونا ۔، ممکن ہے دوسری آیت اس پانی کے جاری ہونے کے ابتدائی مرحلہ کی طرف اشارہ ہو تاکہ پریشانی کا سبب نہ بنے اور بنی اسرائیل اسے اپنے کنٹرول میں کر سکیں اور ” انفجرت “ اس کے آخری مرحلہ کی طرف اشارہ ہو جس سے مراد تیز بہاؤ ہے ۔
 کتاب مفردات راغب میں آیا ہے کہ ” انبجاس “ وہاں بولا جاتا ہے جہاں پانی چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہو اور انفجار اس وقت کہتے ہیں جب پانی وسیع جگہ سے باہر آرہا ہو جو کچھ ہم کہ چکے ہیں یہ تعبیر اس سے پوری طرح ساز گا ر ہے ۔
 ۶۱۔ و اذ قلتم یٰموسٰی ٰلن نصبر علی طعام و احد فادع لنا ربک یخرج لنا مما تنبت الارض من بقلھا و قثائھا و فومھا وعدسھا و بصلھا ط قال اتستبدلون الذی ھو ادنیٰ بالذی ھو خیر ج اھبطو مصرا فان لکم ما سالتم ط و ضربت علیھم الذلة والمسکنة وباء و بغضب من اللہ ط ذٰلک بانھم کانو ا یکفرون باٰیٰت اللہ ویقتلون النبیین بغیر الحق ذٰلک بما عصو ا و کانو یعتدون 
 ۶۱۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کہا : اے موسٰی ! ہم اس کے لئے ہر گز تیار نہیں کہ ایک ہی قسم کی غذا پر اکتفا ء کریں اپنے خدا سے دعاء کرو کہ ہمارے لئے زمین سے اگنے والی سبزیوں میں سے اور ککڑی ، لہسن مسور اور پیاز اگائے ۔ موسٰی نے کہا : کیا بہتر غذا کے بدلے پست ا نتخاب کرتے ہو ( اب اگر ایسا ہی ہے تو کوشش کرو اور اس بیابان سے نکل کر ) کسی شہر میں داخل ہوجاؤ کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تو وہیں ہے ۔ خدا وندے عالم نے ذلت و محتاجی ( کی مہر) ان کی پیشانی پر لگا دی اور نئے سرے سے وہ غضب پروردگار میں مبتلا ہو گئے کیونکہ وہ آیات الہی سے کفر کرتے اور انبیاء کا قتل کرتے تھے اور یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ گنہگار ،سرکش اور تجاوز کرنے والے تھے ۔