Tafseer e Namoona

Topic

											

									  بنی اسرائیل جب فرعونیوں کے چنگل سے نجات پاچکے تو خداو ند عا لم نے

										
																									
								

Ayat No : 57

: البقرة

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ۵۷

Translation

اور ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ کیا. تم پر من و سلٰوی نازل کیا کہ پاکیزہ رزق اطمینان سے کھاؤ. ان لوگوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ خود اپنے نفس پر ظلم کیا ہے.

Tafseer

									 جیسے سورہ مائدہ کی ۲۰تا ۲۲آیات سے ظاہرہوتا ہے بنی اسرائیل جب فرعونیوں کے چنگل سے نجات پاچکے تو خداو ند عا لم نے انہیں حکم دیاکہ وہ فلسطین کی تقدس سر زمین کی طرف جائیں اوراس میں داخل ہو جائیں لیکن بنی اسرائیل اس فر مان کے مطابق نہ گئے اور کہنے لگے جب تک ستمگار (قوم عمالقہ )وہا ں سے باہر نہ چلے جائیں ہم اس زمین میں داخل نہیں ہوں گے ۔انہوں نے اسی پر اکتفانہ کی بلکہ وہ حضرت موسی سے کہنے لگے کہ تواور تیر ا خدا ان سے جنگ کرنے جاوٴ جب تم کامیاب ہو جاوٴ گے توہم ا س میں دا خل ہو جائیں گے ۔
حضرت مو سی ان کی اس بات سے بہت رنجیدہ خاطر ہو ئے اورانہوں نے درگاہ الٰہی میں شکایت کی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ چالیس سال تک بیاباں (صحرائے سینا ) میں اسی طرح سر گرداں رہے
اان میں سے ایک گروہ اپنے کئے پر سخت پشیمان ہو ۔انہوں نے بارگاہ خداکا رخ کیا۔ خدا نے دوسری مرتبہ بنی اسرایئل کو اپنی نعمتوں سے نوازا ۔جن میں بعض کی طرف زیر بحث آیت میں اشارہ کیاگیاہے ۔
ہم نے تمہارے سر پر بادل سے سایہ کیا (ظللناعلیکم الغمام )واضح ہے کہ وہ مسافر جو روزانہ صبح سے غروب تک سورج کی گرمی میں بیابان میں چلتاہے اور وہ ایک لطیف سایہ سے کیسی راحت پائے گا (وہ سا یہ جو بادل کاہوجس سے انسان کے لئے نہ توفضا محدود ہوتی ہو اور نہ جو ہوا چلنے سے مانع ہو )یہ صحیح ہے کہ بادل کے سایہ فگن ٹکڑوں کا احتمال ہمیشہ بیابان میں ہوتا ہے لیکن آیت واضح طور پر کہ رہی ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایسا عام حالات کی طرح نہ تھا بلکہ وہ لطف خدا سے اکثر اس عظیم نعمت سے بہرہ ورہوتے تھے 
دوسری طرف اس خشک اور جلادینے والے بیابان میں چاالیس سال کی طویل مدت سر گر داں رہنے والوں کے لئے غذا کی کافی ووافی ضرورت تھی ۔اس مشکل کو بھی خدا وند عالم نے ان کے لئے حل کردیا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں کہتاہے :کہ ہم نے من وسلوی ٰجو لذیذ اورطاقت بخش غذا ہے تم پر نازل کیا (وانزلنا علیکم المن والسلویٰ)ان پاکیزہ غذاوٴں سے جو تمہیں روزی کے طور پر دی گئی ہیں کھاوٴ(اور حکم خدا کی نافرمانی نہ کرو اور اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرو ) ( کلوامن طیبٰت مارزقنٰکم )لیکن وہ پھر بھی شکر گزاری کے دروازہ میں داخل نہ ہوئے (تا ہم ) نہوں نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے اوپر ہی ظلم کیا ہے (وما ظلمانا ولٰکن کانوا انفسھم یظلمون 
من وسلویٰ کی تفسیر مندرجہ ذیل نکات میں تفصیل سے بیا ن کی جائے گی-