۴۔ ”مواطن کثیرة“ کا مفہوم:
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ۲۵ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ۲۶ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۲۷
بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اس کے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے. پھر اس کے بعد خدا نے اپنے رسول اور صاحبان هایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیا یہی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ہے. اس کے بعد خدا جس کی چاہے گا توبہ قبول کرلے گا وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے.
مندرجہ بالا آیت میں ہے کہ ”مواطن کثیرة“(بہت سے میدانوں) میں خداتعالیٰ نے مسلمانوں کی نصرت کی ۔
وہ جنگیں کہ جن میں رسول الله موجود تھے اور شریک جنگ ہوئے اور وہ جنگیں جن میں آپ شامل تو تھے لیکن خود آپ نے جنگ نہیں کی اور اسی طرح وہ جنگ میں لشکر جس میں لشکرِ اسلام دشمن کے آمنے سامنے ہوا مگر آپ اس میں موجود نہیں تھے ان کی تعداد کے بارے میں موٴرخین میں اختلاف ہے لیکن بعض روایات جو طرقِ اہل بیت سے ہم تک پہنچی ہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اسّی(۸۰) ہے ۔
کافی میں منقول ہے کہ ایک عباسی خلیفہ کے بدن میں زہر سرایت کرگیا تھا اس نے نذر مانی کہ اگر وہ اس سے بچ گیا تو کثیر مال فقراء کو دے گا، جب وہ صحت یاب ہوگیا تو وہ فقہاء جو اس کے گرد پیش تھے انھوں نے مال کے مبلغ میں اختلاف کیا لیکن کسی کے پاس کوئی واضح مدرک اور دلیل نہ تھی، آخرکار انھوں نے نویں امام حضرت محمد بن علی النقی علیہماالسلام سے سوال کیا، آپ نے جواب میں فرمایا کہ کثیر سے مراد اسّی (۸۰) ہے، جب اس کی علت پوچھی گئی تو آپ نے زیرِ نظر آیت آیت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ ہم نے اسلام وکفر کی جنگوں کی تعداد شمار کی کہ جن میں مسلمان کامیاب ہوئے ہیں تو ان کی تعداد اسّی بنی ہے ۔(1)
1۔ تفسیرنور الثقلین، ج۲، ص۱۹۷-