Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اساس قرآن (ام الکتاب)

										
																									
								

Tafseer

									نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق سورہ حمد ام الکتاب ہے۔ ایک مرتبہ جابر بن عبداللہ انصاری آنحضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺنے فرمایا :
 الا اعلمک افضل سورة انزلھا اللہ فی کتابہ قال فقال لہ جابر بلی بابی انت و امی یا رسول اللہ علمنیھا فعلمہ الحمد ام الکتاب۔۔۔ 
کیا تمہیں سب سے فضیلت والی سورت کی تعلیم دوں جو خدا نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہے؟ جابر نے عرض کیا جی ہاں! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھےاس کی تعلیم دیجئے۔ آنحضرتﷺ نے سورہ حمد جو ام الکتاب ہے انہیں تعلیم فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سورہ حمد موت کے علاوہ ہر بیماری کے لئے شفاء ہے۔ (بحوالہ: مجمع البیان، نور الثقلین، آغاز سورہ حمد)  
آپ کا یہ بھی ارشاد ہے : 
والذی نفسی بیدہ ما انزل اللہ فی التوراة ولا فی الزبور و لا فی القرآن مثلھا ھی ام الکتاب۔ 
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے خدا وند عالم نے تورات، انجیل، زبور یہاں تک کہ قرآن میں بھی اسی کوئی سورة نازل نہیں فرمائی اور یہ ام الکتاب ہے۔(ایضا) 
اس سورت میں غور و فکر کرنے سے اس کی وجہ معلوم ہوتی ہے ۔ حقیقت میں یہ سورہ پورے قرآن کے مضامین کی فہرست ہے۔ اس کا ایک حصہ توحید اور صفات خدا وندی سے متعلق ہے،  دوسر ا حصہ قیامت و معاد سے گفتگو کرتا ہے اور تیسرا حصہ ہدایت و گمراہی کو بیان کرتا ہے جو مومنین و کفار میں حد فاصل ہے۔ اس سورہ میں پروردگار عالم کی حاکمیت مطلقہ او رمقام ربوبیت کا بیان ہے نیز اس کی لامتناہی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن کے دو حصے ہیں، ایک عمومی اور دوسرا خصوصی (رحمانیت اور رحیمیت) اس میں عبادت و بندگی کی طرف بھی اشارہ ہے جو اسی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سورہ میں توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید عبادت سب کو بیان کیاگیا ہے۔ 
دوسرے لفظوں میں یہ سورت ایمان کے تینوں مراحل کا احاطہ کرتی ہے :
 ۱۔ دل سے اعتقاد رکھنا۔
 ۲۔ زبان سے اقرار کرنا۔
 ۳۔ اعضاء و جوارح سے عمل کرنا۔ 
ہم جانتے ہیں کہ ام کا مطلب ہے بنیاد اور جڑ۔ شاید اسی بناء پر عالم اسلام کے مشہور مفسرابن عباس کہتے ہیں : 
ان لکل شیء اساسا و اساس القرآن الفاتحہ۔ 
ہر چیز کی کوئی اساس و بنیاد ہوتی ہے اور قرآن کی اساس سورہ فاتحہ ہے۔ 
انہی وجود کی بنا پر اس سورہ کی فضیلت کے سلسلے میں رسول اللہ سے منقول ہے: 
ایما مسلم قرء فاتحة الکتاب اعطی من الاجر کانما قرء ثلثی القرآن و اعطی من الاجر کانما تصدق علی کل مومن و مومنة۔
جو مسلمان سورہ حمد پڑھے اس کا اجر و ثواب اس شخص کے برابر ہے جس نے دو تہائی قرآن کی تلاوت کی ہو (ایک اور حدیث میں پورے قرآن کی تلاوت کے برابر ثواب مذکور ہے) اور اسے اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے ہر مومن اور مومنہ کو ہدیہ پیش کیا ہو۔(بحوالہ: مجمع البیان، نور الثقلین، آغاز سورہ حمد)   
سورہ فاتحہ کے ثواب کو دو تہائی قرآن کے تلاوت کے برابر قرار دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ قرآن کے ایک حصے کا تعلق خدا سے ہے، دوسرے کا قیامت سے اور تیسرے کا احکام و قوانین شرعی سے۔ ان میں سے پہلا اور دوسرا حصہ سورہ حمد میں مذکور ہے ۔ دوسری حدیث میں پورے قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا خلاصہ ایمان اور عمل ہے اور یہ دونوں چیزیں سورہ حمد میں جمع ہیں۔