تفسیر
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ ۖ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ۱۸
اور یہودیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم اللہ کے فرزند اور اس کے دوست ہیں تو پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ پھر خدا تم پر تمہارے گناہوں کی بنا پر عذاب کیوںکرتا ہے ... بلکہ تم اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو اور وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے عذاب کرتا ہے اور اس کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل کائنات ہے اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے.
اس آیت میں پھر روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے : اے اہل کتاب ! اے یہوو نصاریٰ ! ہمارا پیغمبر تمہاری طرف آیا ہے اور اس دور میں جب انبیاء الہٰی کے درمیان فاصلہ اور وقفہ ہو چکا ہے اس نے تمہارے سامنے حقائق بیان کئے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ خدا کی طرف سے ہماری طرف کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا (یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَی فَتْرَةٍ مِنْ الرُّسُلِ اٴَنْ تَقُولُوا مَا جَائَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَلاَنَذِیرٍ) ۔
”بشیر اور نذیر“ یعنی پیغمبر اسلام جنہوں نے صاحب ایمان او رنیک افراد کو خدا کی رحمت و جزا کی بشارت دی او ربے ایمان، گنہ گار اور آلودہ افراد کو عذاب ِ الہٰی سے ڈرا یا ایسا پیغمبر تمہاری طرف آگیا ہے ( فَقَدْ جَائَکُمْ بَشِیرٌ وَنَذِیرٌ ) ۔
” فترت“ در اصل سکون و اطمنان کے معنی میں ہے ۔ دو حرکات، دو کوششوں اور دو انقلابات کے درمیانی فاصلے کو بھی ” فترت“ کہتے ہیں ۔
حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور حضرت مسیح (علیه السلام) کے درمیانی انبیاء مرسلین موجود تھے لیکن حضرت مسیح (علیه السلام) اور پیغمبر اسلام کے درمیان یہ صورت نہیں تھی قرآن نے اس دور کانام ” فترت رسل “ رکھا ہے او رہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اور بعثتِ پیغمبرکے درمیان تقریباً چھ سو سال کا فاصلہ تھا ۱
۱۔بعض ان دو عظیم پیغمبروں کے درمیانی عرصے کو چھ سوسال سے کم سمجھتے اور بعض زیادہ۔ کچھ کے بقول حضرت مسیح (علیه السلام) کی ولادت اور پیغمبر اسلام کی ہجرت کے درمیان رومی سالوں کے حساب سے چھ سو اکیس سال اور ایک سو بچانوے دن کا فاصلہ ہے ۔( تفسیر الفتوح رازی ج۴ ص ۱۵۴ کے حاشیہ پر مر حوم شعرانی کی تحریر)