Tafseer e Namoona

Topic

											

									  وضو اور تیمم کا فلسفہ

										
																									
								

Ayat No : 6

: المائدة

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَٰكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۶

Translation

ایمان والو جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوںکو دھوؤ اور اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرو اور اگر مریض ہو یا سفر کے عالم میں ہو یا پیخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یا عورتوں کو باہم لمس کیاہے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو -اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلو کہ خدا تمہارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا. بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے شاید تم اس طرح اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ.

Tafseer

									تیمم کے فلسفے کے بارے میں تو تیسری جلد میں کافی بحث ہوچکی ہے۔ باقی رہا وضو کا فلسفہ تو اس میں شک نہیں کہ وضو میں دو واضح فائدے ہیں:
ایک فائدہ صحت کے حوالے سے ہے اور دوسرا فائدہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ہے۔
صحت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک دن میں پانچ مرتبہ یا کم از کم تین مرتبہ چہرے اور ہاتھوں کے دھونا، بدن کی نظافت اور پاکیزگی میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ سراور پاؤں کے مسح کی شرط کہ جس میں ضروری ہے کہ پانی ہالوں یا بدن کے چمڑے کو مَس کرے بھی اس چیز کا سبب بنتاہے کہ یہ اعضاء بھی پاک صاف رکھے جائیں اور جیسا کہ نسل کے فلسفہ میں ہم وواضح کریں گے، پانی کا بدن کے چمڑے کو مس کرنا سمپاتھیک (sympathetic)اور پیرا سمپاتھیک(parasympathetic)اعصاب معتدل رکھنے میں بہت مؤثر ہے۔
اخلاقی و روحانی حوالے سے دیکھا جائے تو چونکہ یہ کام قصد قربت سے اور خدا کے لیے کیا جاتاہے لہٰذا تربیتی اثرات کا حامل ہے خصوصاً جب کہ کنایةً اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں سر سے لے کر پاؤں تک تیری اطاعت کے لیے حاضر ہوں۔ اس اخلاقی اور معنوی پہلو کی موید وہ روایت ہے جو امام علی بن موسٰی رضا علیہما السلام سے منقول ہے، آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
انما امر الوضوء و بدء بہ لان یکون العبد طاہراً اذا قام بین یدی الجبار، عند مناجاتہ ایاہ، مطیعاً لہ فیما امرہ، تقیًا من الادناس و النجاسة، مع ما فیہ من ذہاب الکسل، و طرد النعاس و تزکیة الفؤاد للقیام بین یدی الجبار۔
و ضو کا حکم اس لیے دیا گیا ہے اور عبادت کی ابتداء اس سے اس لیے کی گئی ہے تا کہ بندے جب بارگاہ الٰہی میں کھڑے ہوں اور مناجات کریں تو پاک و پاکیزہ ہوں، اس کے احکام پر کار بند رہیں اور آلودگیوں اور نجاستوں سے دور رہیں۔ اس کے علاوہ وضو کے سبب سے نیند اور سُستی کے اثرات انسان سے دور ہوجاتے ہیں نیز یہ اس لیے ہے تا کہ دل درگاہِ خداوندی میں کھڑے ہونے کے لیے روشنی اور پاکیزگی حاصل کرلے۔1

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

1- وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۲